پر کلام فرمایا ہے۔انہوں نے اس پر زوردیا ہے کہ ظہور مہدی کے متعلق جتنی احادیث مروی ہیں ۔ وہ قابل اعتبار نہیں ہیں اورثبوت کے درجے تک نہیں پہنچی ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ظہور مہدی کا عقیدہ جو مسلمانوں میں چودہ سو سال سے منتقل ہوتا آیا ہے،بے بنیاد ہے۔چونکہ خود صاحب مضمون نے اس کی فرمائش کی ہے کہ دوسرے علماء اس موضوع پر قلم اٹھائیں ،اور یہ کہ اگر صحیح احادیث سے مسئلہ ثابت ہو جائے تو صاحب مضمون اپنا خیال بدل سکتا ہے۔
اسی طرح رسالہ کی مجلس ادارت کی طرف سے بھی اس موضوع پر لکھنے کی دعوت دی گئی تھی اورساتھ ساتھ یہ خطرہ تھا کہ اگر سکوت اختیار کیا جائے تو عام مسلمان شکوک وشبہات میں مبتلا ہوں گے۔نیز اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ سلف صالحین کے متعلق بد گمانی پیدا ہو گی کہ انہوں نے ایک ایسے مسئلے کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ جس کی کوئی صحیح بنیاد موجود نہیں۔ یہی وہ محرکات تھے کہ بندہ کو اس پر قلم اٹھانے کی جرأت ہوئی۔امید ہے کہ دوسرے علماء حضرات بھی اس موضوع پر اپنے گراں قدر خیالات اورتحقیقات کااظہار فرمائیں گے۔ جس سے عام مسلمان مستفید ہوں گے۔ اس طویل تمہید کے بعد میں اصل مدعا پر آتا ہوں۔
ظہور مہدی کا عقیدہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اورچودہ سو سال سے مسلمانوں میں مسلم اورمشہور ہے۔اب میں تفصیل سے ان احادیث کو مع حوالہ درج کرتا ہوں کہ جن پر اس عقیدہ کی بنیاد ہے۔ وماتوفیقی الاباﷲ علیہ توکلت والیہ انیب۔
۱… جمع الفوائد میں محمد بن محمدبن سلیمان الفاسی المغربی المتوفی ۱۰۲۹ھ نے کتاب الملاحم واشراط الساعۃ میں یہ حدیث نقل کی ہے:
’’ابن مسعود رفعہ لو لم یبق من الدنیا الایوم واحد لطول اﷲ ذالک الیوم حتی یبعث اﷲ فیہ رجلا منی اومن اھل بیتی یواطع اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی یملأ الارض قسطا وعدلا کماملئت ظلماوجورا (ابی داؤدج۲ص۱۳۱ کتاب المہدی والترمزی ص۵۱۲ج۳حدیث نمبر۹۹۱۳)‘‘{عبداﷲ بن مسعودؓ کی مرفوع روایت ہے کہ اگر دنیا کا صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے تو بھی اﷲ تعالیٰ اس دن کو طویل کردیں گے۔یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس میں ایک آدمی مبعوث فرمائیں گے جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا۔ اس کا نام میرے نام پر ہوگا ۔اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پرہوگا۔(یعنی محمدبن عبداﷲ) وہ زمین کوانصاف اورعدل سے بھر دے گا۔