لہٰذا امام مہدی کی حدیثوں کے سلسلے میں نہ تو ہر گوشہ کی پوری تاریخ معلوم کرنی کی سعی کرنی صحیح ہے اور نہ صحت کے ساتھ منقول شدہ منتشر ٹکڑوں میں جزم کے ساتھ ترتیب دینی صحیح اورنہ اس وجہ سے اصل پیشین گوئی میں تردید پیدا کرنا علم کی بات ہے۔یہاں جملہ پیشین گوئیوں میں صحیح راہ صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ جتنی بات حدیثوں میں صحت کے ساتھ آچکی ہے ۔اس کو اسی حد تک تسلیم کرلیا جائے اور زیادہ تفصیلات کے درپے نہ ہواجائے اوراگر مختلف حدیثوں میں کوئی ترتیب اپنے ذہن سے قائم کر لی گئی ہے تو اس کو حدیثی بیان کی حیثیت ہرگز نہ دی جائے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس سلسلہ کی حدیثیں مختلف اوقات میں مختلف لحاظ سے روایت ہوئی ہیں اور ہر مجلس میں آپ نے اس وقت کی مناسب اور حسن ضرورت تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔یہاں یہ امر بھی یقینی نہیں کہ ان تفصیلات کے براہ راست سننے والوں کو ان سب کا علم حاصل ہو۔ بہت ممکن ہے کہ جس صحابی نے امام مہدی کی پیشین گوئی کا ایک حصہ ایک مجلس میں سنا ہو اس کو اس کے دوسرے حصے کے سننے کی نوبت ہی نہ آئی ہو جودوسرے صحابی نے دوسری مجلس میں سنا ہے اوراس لئے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ واقعہ کے الفاظ بیان کرنے میں ان تفصیلات کی کوئی رعایت نہ کرے ،جودوسرے صحابی کے بیان میں موجود ہیں۔ یہاں بعد کی آنے والی امت کے سامنے چونکہ یہ ہر دوبیانات موجود ہیں۔اس لئے یہ فرض اس کا ہے کہ اگر وہ ان تفصیلات میں کوئی لفظی بے ارتباطی دیکھتی ہے ۔تو اپنی جانب سے کوئی تطبیق کی راہ نکال لے۔اس سے بسااوقات ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ یہ توجیہات راویوں کے بیانات پر پوری پوری راس نہیں آتی۔اب راویوں کے الفاظ کی یہ کشاکش اورتاویلات کی ناسازگاری کا یہ رنگ دیکھ کر بعض دماغ اس طرف چلے جاتے ہیں کہ ان تمام دشواریوں کے تسلیم کرنے کی بجائے اصل واقعہ کا ہی انکار کردینا آسان ہے۔ اگر کاش وہ اس پر بھی نظر کر لیتے کہ یہ تاویلات خودصاحب شریعت کی جانب سے نہیں۔ بلکہ واقعہ کے خود راویوں کی جانب سے بھی نہیں۔ یہ صرف ان دماغوں کی کاوش ہے جن کے سامنے اصل واقعہ کے وہ سب متفرق ٹکڑے جمع ہو کر آگئے ہیں۔جن کومختلف صحابہ نے مختلف زمانوں میں روایت کیاہے اوراس لئے ہر ایک نے اپنے الفاظ میں دوسرے کی کوئی رعایت نہیں کی اور نہ وہ کرسکتا ہے ۔تو پھر نہ ان راویوں کے الفاظ کی اس بے ارتباطی کا کوئی اثرپڑتا اور نہ ایک ثابت شدہ واقعہ کا انکار صرف اتنی سی بات پر ان کوآسان نظرآتا۔