واقعات کی ترتیب اوربعض جگہ ان کا تعین یہ دونوں باتیں خود حضرت موصوف ہی کی جانب سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث وقرآن میں جو قصص وواقعات بیان کئے گئے ہیں۔خواہ وہ گزشتہ زمانے سے متعلق ہوں یا آئندہ سے۔ان کا اسلوب بیان تاریخی کتابوں کا سا نہیں۔بلکہ بسبب مناسبت مقام ان کا ایک ایک ٹکڑا متفرق طور پرذکر میں آیا ہے۔پھر جب ان سب ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے۔ تو بعض مقامات پر کبھی ان کی درمیابی کڑی نہیں ملتی۔کہیں ان کی ترتیب میں شک وشبہ رہ جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر بعض خام طبائع تواصل واقعہ کے ثبوت ہی سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ غور یہ کرنا چاہئے کہ جب قرآن وحدیث کاسلوب بیان ہی وہ نہیں جو آج ہماری تصانیف کا ہے تو پھر حدیثوں میں اس کو تلاش ہی کیوں کیا جائے؟ نیز جب ان متفرق ٹکڑوں کی ترتیب خود صاحب شریعت نے بیان ہی نہیں فرمائی تو اس کو صاحب شریعت کے سرکیوں رکھ دیا جائے؟ لہٰذا اگر اپنی جانب سے کوئی ترتیب قائم کر لی گئی ہے۔ تو اس پر جزم کیوں کیا جائے؟ ہو سکتا ہے جو ترتیب ہم نے اپنے ذہن میں بنارکھی ہے۔حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اس قسم کے اوربھی بہت سے امور ہیں جو قرآن وحدیثی قصص میںتشنہ نظرآتے ہیں۔ اس لئے یہاں جو قدم اپنی رائے سے اٹھالیا جائے ۔اس کو کتاب وسنت کے سر رکھ دینا ایک خطرناک اقدام ہے اوراس ابہام کی وجہ سے اصل واقعہ کا ہی انکار کردینا یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ واقعات کی پوری تفصیل اوراس کے اجزاء کی پوری پوری ترتیب بیان کرنی رسول کاوظیفہ ہی نہیں۔یہ ایک مؤرخ کا وظیفہ ہے۔ رسول آئندہ واقعات کی صرف بقدر ضرورت اطلاع دیتا ہے۔ پھر جب کے ظہور کا وقت آتا ہے تو وہ خود اپنی تفصیل کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اوراس وقت یہ ایک کرشمہ معلوم ہوتاہے کہ اتنے بڑے واقعات کے لئے جتنی اطلاع حدیثوں میں آچکی ہے وہ بہت کافی تھی اورقبل از وقت اس سے زیادہ تفصیلات دماغوں کے لئے غیر ضروری بلکہ شاید اورزیادہ الجھاؤ کا موجب تھی۔ علاوہ ازیں جس کو ازل سے ابد تک کا علم ہے وہ یہ خوب جانتا تھا کہ کم وقت میں دین روایت اور اسانید کے ذریعے پھیلے گا اوراس تقدیر پر راویوں کے اختلاف سے روایتوں کا اختلاف بھی لازم ہوگا۔ پس اگر غیر ضروری تفصیلات کو بیان کردیا جاتا تو یقینا ان میں بھی اختلاف پیدا ہونے کا امکان تھا اور ہو سکتاتھا کہ امت اس اجمالی خبر سے جتنا فائدہ اٹھا سکتی تھی،تفصیلات بیان کرنے میں وہ بھی فوت ہو جاتا۔