خطاب‘‘{فرمایا نبی کریمﷺ نے کہ اگر میرے بعد نبی ہوتا تو جناب عمرؓ بن خطاب ہوتے۔}
یعنی اگر ہمارے بعد کسی نبی کا ہونا ممکن ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتے۔ کیونکہ ان کے دل میں رب کی طرف سے الہام اورالقاء بہت ہوتا ہے اورانہیں وحی سے بہت ہی مناسبت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی بہت سے آیات آپ کی رائے کے مطابق آئیں۔ جیسے پردہ ،شراب کی حرمت،بدر کے قیدیوں کے بارے میں آیات نازل ہوئیں۔ سرکار دوعالمﷺ جب غزوئہ تبوک کو جانے لگے تو حضرت مولاعلیؓ کو اہل مدینہ کی حفاظت پرمامور فرمایا تو حضرت مولا علیؓ نے جہاد کی خواہش فرمائی تو حضورﷺ نے فرمایا:’’عن سعد ابن ابی وقاصؓ قال قال رسول اﷲﷺ لعلیؓ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الاّ انہ لانبی بعدی(بخاری ومسلم ومشکوٰۃ ص۵۶۳‘‘{روایت ہے حضرت سعد ابن ابی وقاص سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اﷲﷺ نے جناب حضرت علیؓ سے کہ تم مجھ سے اس درجہ میں ہو کہ جو حضرت ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھا۔ بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
یعنی تم میں اور جناب ہارون علیہ السلام میں فرق یہ ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ بھی تھے اورنبی بھی۔ تم میرے خلیفہ ہو نبی نہیں۔ کیونکہ نبوت مجھ پر ختم ہوچکی۔ اب نہ تو میرے زمانہ میں کوئی نبی ہونہ میرے بعد۔
ان احادیث سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ حضور نبی کریمﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا۔تشریعی یعنی(صاحب شریعت نبی یاغیر تشریعی یعنی نبی شریعت نہ لائے یاظلی یعنی پہلے نبی کے تابع ہوکر )ہوجو کوئی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کافر اورملعون اور ان کذابوں دجالوں میں سے ہوگا۔ جن کی خبر مخبر صادق نبی مکرم احمد مجتبیٰﷺ نے پہلے ہی فرمائی ہے۔ صحابہ کرامؓ سے لیکر آج تک اہل اسلام کا اس پراتفاق ہے ۔ اسی پرمضمون ختم کرتا ہوں کیونکہ اس مختصر رسالے میں زیادہ مضمون کی گنجائش نہیں ہے۔آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس راستہ پرچلائے جو اس کے نیک بندوں کا ہے اوراس زمانہ کی ہواؤں سے ہمارا ایمان محفوظ رکھے۔