انکار کیسے کر سکتا ہے ۔تومرزائی اس کاجواب یہ دیں گے کہ مرزا قادیانی رسول اکرمﷺ کو مانتے ہیں۔ مگر خدا کے بعد رسول کادرجہ ہے۔اگر رسول کا کوئی حکم خدا کے حکم کے خلاف پڑے تو رسول کی بات چھوڑ دی جائے گی۔ یہ تو دنیاکومعلوم ہے کہ مرزاقادیانی نے عیسائی کو دجال کہا اوردجال دعویٰ الوہیت کرے گا توعیسائی حکومت خدا کی ہولی یا نہیں؟ توپھر پہلے عیسائی حکومت کا فرمان دیکھیں گے پھر اورکسی کا اورعیسائی حکومت کا امام مہدی علیہ الرضوان کے متعلق کیا خیال ہے۔دیکھو (اشتہار مرزا پنجابی مولویوں کے نام ص۴، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۰۸) ’’گورنمنٹ ایسے لوگوں کو خطرناک سمجھتی ہے جو ایسے مہدی کے آنے کا اعتقاد رکھتے ہوں۔‘‘ اب آپ ہی کہئے کہ رسول اﷲﷺ کی بات مان کر کیوں خطرہ مول لیا جائے؟اسی عقلمندی کی وجہ سے مرزا قادیانی ان تمام حدیثوں کا انکار کر دیا یا ایسا مطلب بتایا جو ان کے خدا کے خلاف نہ پڑے۔
اس میں مرزا نے غلطی کیا کی جودنیا بھرکا الزام ان کے سرتھوپاجارہا ہے؟ آخر اہلسنت کے ہاں بھی تو یہی مسئلہ ہے کہ خدا کے حکم کے خلاف بظاہر اگر حدیث معلوم ہو تو قرآن کے موافق ترجمہ کرو۔ یہی مرزا نے کیا۔ صرف فرق اتنا ہے کہ اہلسنت خدا کو ’’وحدہ لاشریک لہ ‘‘مانتے ہیں اور مرزا قادیانی ایک جماعت کو خدا مانتے ہیں۔ بولئے! یہ واقعہ ہے یا محض تفنن ،مرزائی کا جواب کیسا رہا؟
مرزا کی ان مختلف الخیال اوراوٹ پٹانگ تحریر وعقائد کو دیکھ کر خیال ہی نہیں۔ظن غالب بلکہ یقین محکم ہوتا ہے کہ مرزا قادیان کا توازن دماغی قائم نہ تھا۔مگر پہلے میں ایک کہانی سنا دوں۔پھر میرے خیال پرتنقید کیجئے۔ (عسل مصفیٰ ص۵۳)’’ریواڑی ضلع گورگانوہ کا رہنے والا ایک شخص مولوی اصغر حسین نامی نے کی عمر ۶۰سال سے متجاوز تھی۔ دعویٰ کیا کہ میں مہدی ہوں۔یہ شخص قوم کے سید اورصاحب علم بھی ہیں۔ کسی زمانہ میں ان کے بزرگ آسودہ حال تھے۔ مگر گردش زمانہ سے وہ نحیف الحال ہو گئے اور کافی خوراک نہ ملنے اور پھر کثرت مطالعہ کی وجہ سے ان کے دماغ میں خشکی پیدا ہو گئی اور جنون اٹھا کہ میں مہدی موعود ہوںاور چودھویں صدی کا مجدد بھی ہوں۔ اس پروہ تلوار اورایک جھنڈے لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو جہاد کی طرف بلانے لگے۔ آخر کو یہ جنون سمایا کہ اوّل تھانہ پریورش کی جائے۔ جب تھانہ قبضہ میں آ جائے گا تو پھر ضلع پرحملہ کر دوں گا اور پھر رفتہ رفتہ تمام ملک پر قابض ہو جاؤں گا۔ چنانچہ اس ارادہ پروہ تھانہ میں گئے اور تھانیدار سے اپنا ارادہ ظاہرکیا۔ اس نے ہتھکڑی لگا کر ضلع میں بھیج دیا۔ آخر مجنوں شمار ہوکر چار ماہ کی حوالات کے بعد رہا کردیاگیا اوراس کے بھائی کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس کی نگرانی کریں۔ یہ وہی مولوی اصغر حسین ہیں جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام پرایک ہزار روپیہ کی نالش داغ دی تھی