آئی۔جیسے قوم یونس ڈر گئی تو اس پرعذاب نہ آیا۔ اس سے نہ صرف حضرت یونس علیہ السلام کی نبوت گئی اورنہ مرزا کی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی کی پیشین گوئی کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ مرزا کی پیشین گوئی یہ ہے کہ محمدی بیگم کا جس سے نکاح ہو گا۔ وہ ڈھائی برس کے اندر مر جائے گا اور اس کا مرنا قطعی تقدیر مبرم ہے۔ خدا کاوعدہ ہے جو کسی صورت ٹل نہیں سکتا( اگر تمام جملے نظر انداز کر دیئے جائیں اورپیشین گوئی کا ایک الہامی جملہ صرف پیش نظر ہوکہ کسی صورت سے ٹل نہیں سکتا ۔ تو سوال یہ ہے کہ خوف کی وجہ سے یا توبہ کی وجہ سے یا تم کو نبی ماننے کی وجہ سے بہر صورت کوئی وجہ مانو اس وجہ سے یہ پیشین گوئی ٹل گئی یا نہیں)ضرور ٹل گئی۔ تو یہ خدا کا کلام نہ ہوا(کہ کسی صورت سے ٹل نہیں سکتا) اورمرزا قادیانی کہتا ہے کہ الہام ہے۔ وحی ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی کاذب مفتری ہوا۔
اورحضرت یونس علیہ السلام کی اگر پیشین گوئی مان لی جائے۔ تو یہ ہوگی: ’’اے قوم اگر تو نہیں مانتی تو تجھ پرعذاب الٰہی نازل ہوگا۔‘‘میں نے یہ کہا اگر مان لی جائے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کا یہ پیشین گوئی کرنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں۔ انذاز ثابت ہے اور یہ تو ان کا کام ہی ہے۔ ہر نبی آئے۔ تشریف لائے کہ فرمانرداروں کو جنت اوررضائے الٰہی کا مژدہ سنائیں اورنافرمان باغیوں کو عذاب الیم سے ڈرائیں۔ چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام نے ایسا کیا۔ اب دونوں پیشین گوئیاں ایک جگہ جمع کیجئے۔
حضرت یونس علیہ السلام کی پیشین گوئی
’’اے قوم!اگر تو نہیں مانتی توتجھ پر عذاب الٰہی نازل ہو گا۔‘‘
مرزا دجال کی پیشین گوئی
’’محمدی بیگم کا جس سے نکاح ہوگا۔ ڈھائی برس کے اندر مر جائے گا۔ محمدی بیگم مرزا کے نکاح میں آئے گی۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ تقدیرمبرم ہے۔ کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘
اگر حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پرعذاب نازل ہونے والا تھا اور آپ کی قوم گریہ وزاری میں لگی۔ توبہ کی اوروہ بھی ایسی توجہ جس کی نظیر نہیںملتی۔یوں عذاب ٹل گیا تو اس میںحضرت یونس علیہ السلام کی کیا تکذیب ہوئی؟ ان کی تو پیشین گوئی یہی تھی کہ ایمان نہ لاؤ گے ۔ توبہ صحیحہ نہ کرو گے تو عذاب نازل ہوگا۔ توبہ صحیحہ کر لی۔ عذاب ٹل گیا۔ عذاب کاآنا مشروط تھا ان کے کفر کے ساتھ ۔جب کفر چھوڑ اعذاب سے چھوٹ گئے۔