سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت براہوگا۔ جس دوسرے شخص سے وہ بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال اور ایسا ہی والد اس کے تین سال تک فوت ہو جائے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۶تا۱۵۸)
اس پورے مضمون کا ماحصل یہ ہواکہ محمدی بیگم(جس کومرزا چاہتا ہے ۔ وہ مرزا احمد بیگ کی بڑی لڑکی ہے) کا نکاح مرزا سے ہوناچاہئے۔ ورنہ خدائی فرمان ہے کہ جس روز احمد بیگ اپنی دخترکلاں محمدی بیگم کا نکاح کسی اور سے کر دے گا۔ توخود مرزا احمد بیگ والد محمدی بیگم اس روز سے تین سال کے اندر فوت ہوجائے گا اور ہونے والا شوہر نکاح کے دن سے اڑھائی برس کے اندر مر جائے گا اوراس لڑکی محمدی بیگم کا انجام بہت برا ہو گا۔ اس مضمون کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ انکار کی صورت میں یعنی مرزاقادیانی سے اگر محمدی بیگم کا نکاح نہ ہوا تو دو آدمی مر جائیں گے۔مگر ایک ساتھ نہیں۔ ایک پہلے مرے گا پھر دوسرا ۔پہلے محمدی بیگم کاہونے والا شوہر مرے گا۔ پھر محمدی بیگم کا باپ مرزا محمد بیگ مرے گا۔
خلاصہ پیشگوئی کا یہ ہواکہ اگرمرزا قادیانی کا نکاح محمدی بیگم سے نہ ہوا تو دو آدمی مر جائیں گے۔ پہلے اس کا شوہر ،پھراس کا باپ۔ اس پیشگوئی کے جھوٹے ہونے کی ایک صورت تو یہ ہوئی کہ میعاد کے اندر کوئی نہ مرے ۔ دوسری صورت یہ ہو کہ ترتیب الٹ جائے۔ پہلے باپ مرے بعد میں شوہر۔ یا ایک میعاد کے اندر مرے ۔دوسرا بعد میعاد۔ تو ان تینوں صورتوں میں پیشگوئی جھوٹی ہوئی اور اس پیشگوئی میں تیسری صورت ہوئی۔لہٰذا یہ پیشگوئی غلط ہوئی۔
ایک بات اور یاد رکھنے کی ہے کہ مرزاکادعویٰ ہے کہ احمد بیگ میری پیشگوئی کے مطابق مر گیا۔میںکہتا ہوں بالکل جھوٹ۔ایک وجہ تو اس کے جھوٹ کی معلوم ہوگئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صاحب زبان پرروشن ہے کہ اگر کوئی کہے کہ فلاح چیزڈھائی روپیہ کے اندرملے گی اورفلاں چیز تین روپیہ کے اندر ۔ تو یہ ڈھائی تین کامقابلہ بتارہا ہے کہ دوسری چیز اڑھائی کے اندر نہیں مل سکتی۔ اس صورت میں الفاظ پیش گوئی کا مطلب یہ ہوا کہ والد محمدی بیگم مرزااحمدبیگ دو سال چھ ماہ بعد ساتویںیاآتھویںیانویں یادسویں یاگیارھویں مہینے مرے گا۔مگر ہوا یہ کہ نکاح کے چھٹے مہینے مر گیا۔ لہٰذا اس جزو میں بھی پیشگوئی صحیح نہ اتری۔بہر صورت ۱۸۸۸ء سے ۱۸۹۱ء تک ہزاروں تدبیریں کی گئیں۔ مرزا جی نے تمام اعزاہ واقرباء سے زدردلوایا۔ مگر کامیابی کا منہ دیکھنانصیب نہ ہوااو ر محمدی بیگم کی بات چیت سلطان محمد بیگ سے پختہ ہوگئی۔ یہاںمرزا کے وہ خطوط بھی قابل لحاظ ہیں۔ جو مرزا نے پیشگوئی سے ناامید ہوکرلڑکی کے باپ اوربااثراعزاہ کے پاس لکھے۔