دونوں میں سے کوئی نہ تھا۔ جو حضورؐ نے سمجھاغلط تھا۔ اس حدیث کے متعلق دو باتیں قابل اظہار ہیں۔ایک حدیث کے اردو معنیٰ جو مذکور ہوئے۔دوسرے اس حدیث کے صدور کا وقت ۔ یہ دوسرا امر دوحال سے خالی نہیں۔ یا توحضورؐ نے یہ حدیث مکہ معظمہ میں بیان فرمائی یا مدینہ طیبہ میں۔ اگر مدینہ طیبہ میں بیان کی توپیشگوئی نہ ہوئی اوراگر یہ کہو کہ پوری حدیث مکہ معظمہ میںبیان فرمائی اور ’’فاذا ھی المدینۃ‘‘کا لفظ مدینہ طیبہ میں بیان کیا۔ جیسا کہ قادیانیوں کے مسلک سے معلوم ہوتاہے۔ تو دیکھو اس حدیث کے راوی حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ہیں۔ جو مکہ میں اسلام لائے۔ ’’اسلم بمکۃ وھاجرالی ارض الحبشۃ ثم قدم مع اہل السفینۃورسول اﷲ ﷺبخیبر‘‘اورتقریباً آٹھ سال سنہ ہجری میں پہلے حبشہ ہجرت کر گئے اور۷سنہ ہجری میں مدینہ آئے۔ اس وقت حضوؐرخیبر میں تشریف فرما تھے۔ یا تو جیسے ہی حضرت ابوموسیٰ حاضر ہوئے ویسے ہی حضورؐ کوعلم ہوا کہ ہماری پیشگوئی غلط تھی۔ اس کے ازالہ کے لئے فوراً ’’فاذاھی المدینۃ‘‘ فرمایا۔ یا سال دو سال کے بعد ،بہرصورت کم از کم چودہ برس تک توضرورغلطی میں مبتلارہے۔کیا ایساہو سکتاہے؟
یہ سوال کسی مسلمان سے کرنے کی حاجت نہیں۔کیونکہ وہ ایسے مزخرفات کا قائل ہی نہیں۔ یہ قادیانی سے پوچھئے۔ (عسل مصفیٰ ص۱۰۶)پر انبیاء علیہم السلام کی غلطی کے متعلق لکھتا ہے:’’مگر ان کو اس خطا پر بہت جلد تنبیہ کیا جاتا ہے اوردیر تک ان کواس حالت غلطی پرنہیں رکھا جاتا۔‘‘ یعنی انبیاء علیہم السلام سے اگر غلطی ہو بھی جاتی ہے۔ تو جلد متنبہ کردیئے جاتے ہیں۔اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شکل بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ یہاں تو کوئی سال چھ ماہ کی دیر نہیں پورے چودہ سال تاریکی میں رکھا گیا۔ جو اس کے مذہب کی بناء پرجائز نہیں۔ اب ایک صورت رہ گئی کہ پوری حدیث تمام اجزاکے ساتھ مکہ معظمہ میں بیان فرمائی۔ تو اس میں کوئی اشتباہ نہیں۔ پیشگوئی بھی ہو گئی اور بیک ساعت تینوں محتمل صورتوں کو بیان کر کے مقام ومراد کو متعین بھی فرما دیا۔ اس میں غلطی کیا ہوئی؟ہاں!تمہاری غلطی خود تمہاری عبارت سے ظاہر ہو گئی۔ انبیاء علیہم السلام کی ذات اس سے پاک ہے۔ ان کا خواب اوربیداری سب یکساں ہیں۔ ان پرشیطانی تسلط نہیں ہوتا خصوصاً سید المرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو کچھ حال میں احکام فرمائیں۔سب وحی الٰہی ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ اس میں خطا ہو۔ پھر انبیاء کی پیشگوئی تو وعدئہ الٰہی ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ولاتحسبن اﷲ مخلف وعدہ رسلہ‘‘{ہرگز ایسا گمان بھی نہ کرو کہ خدا اپنے رسولوں سے وعدہ کر کے پورا نہیں کرے گا}جو وعدہ کرے گا۔ ضرور پورا فرمائے گا۔خدا