بات سے کچھ ڈھارس بندھی۔ مگر ادھر روز کے جشن جلسے جلوس، مرزا پردجال ،کذاب کے ہر چہار طرف نعرے ،بہت سے قصیدے ،نظمیں مرزا کی شان میں لکھی گئیں۔جن میں چند اشعار آپ بھی سن لیجئے۔
غضب تھی تجھ پر ستم گر چھٹی ستمبرکی
نہ دیکھی تو نے نکل کر چھٹی ستمبر کی
ذلیل وخوار ندامت چھپا رہی تھی کہ تھا
تیرے مریدوں پر محشر چھٹی ستمبر کی
مسیح ومہدی کاذب نے منہ کی کھائی خوب
یہ کہتی پھرتی ہے گھر گھر چھٹی ستمبر کی
آخر قادیانی کہاں تک صبرکرتے۔پھر مرزا کے پاس فریادی آئے۔بیزاری ان کے چہروں سے ظاہر۔مرزا ندامت آلود چہرے کے ساتھ اپنی ذلت ورسوائی جو چاردانگ عالم میں ہو رہی تھی،سنتا رہا۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔(انجام آتھم ص۲،خزائن ج۱۱ص۲) :’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھالیں تو وعدہ ایک سال قطعی اوریقینی ہے ، جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ ‘‘اب مریدین مرزا کو بڑا سہارا ملا اوردنیا میں کہتے پھرے کہ اب اگر باز نہیں آیا تو ایک سال کا قطعی وعدہ ہے اور وہ بھی تقدیر مبرم ،جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ اب کی پیشگوئی تقدیر مبرم ہے۔ اب سال کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسے پہلے پیشگوئی کی طرح نہ سمجھو۔ وہ مشروط تھی اور یہ مبرم ہے ۔ جو ضرور ہو کر رہے گی۔ قسم کھائے یا نہ کھائے۔‘‘ ( انوار الاسلام ص۱۱،خزائن ج۹ص۱۱۴) :’’اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خداتعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا۔‘‘
جو اس کی نبوت پر ایمان لا چکے تھے۔ تقدیر مبرم کانام سن کر مطمئن ہو گئے او جو اس کو دجال کذاب جانتے تھے۔وہ پہلے پیشینگوئی سے مرزا کی ذلت ورسوائی کو بچشم خود دیکھ کر طمانت قلبی پاچکے تھے۔ اعلان عام ہورہا تھا۔ مرزائی دم بخود تھے۔ کچھ بنائے نہ بن پڑ تاتھا۔ مگر آنسو پونچھنے کے لئے وہ خباثت کچھ کام آگئی۔یعنی ایک برس کاانتظار۔ قادیانیوں کی طرف ہر اعتراض کا جواب یہی تھا کہ سال بھرصبرکرو۔ مرزا کی نبوت ثابت ہوئی جاتی ہے۔ مگر ان کے مخالف زندہ آتھم کو دیکھ کو اور پھر بالااعلان ان کی مخالفت کرتا ہوا دیکھ کر کب خاموش رہ سکتے تھے۔مرزاکہتاتھا کہ آتھم نے حق قبول کرلیا۔ آتھم کہتاتھا کہ جیسا تجھے پہلے دجال سمجھتا تھا۔اب بھی سمجھتا ہوں۔ بلکہ اب زیادہ یقین کے ساتھ۔ بہرحال اس پیشگوئی کے بعد دنیا بھر میں اس کی انتہائی ذلت ہوئی۔ جو کچھ اس نے پیشگوئی میں کہا تھا۔ وہ اس کے لئے پوری ہوئی۔ چنانچہ اپنے مخالف کے لئے خود مرزا (ضمیمہ آتھم ص۳،خزائن ج۱۱ص۲۸۷) میں لکھتا ہے: ’’امرتسر اوربہت سے دوسرے شہروںمیں