ہے) پھر پوچھا ،تو اس کی علامات اورنشانیاں بتائیے؟ فرمایا:’’ ماں باپ کا احترام اٹھ جائے گا۔دولت کی کثرت ہو گی۔ بے عزت بڑی بڑی عزت کی جگہ لے لیں گے۔‘‘حضرت عمرؓ فرماتے ہیں، وہ تو پوچھ کر چلے گئے۔ مگر میری پریشانی نہ گئی۔ حضورؐ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ عمرؓ!جانتے ہو یہ کون صاحب تھے؟ میں نے عرض کیا ،اﷲ جانے اوراﷲ کا رسول جانے۔ حضورﷺ نے فرمایا :’’یہ جبرائیل تھے۔ تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
ان ہی امام بخاریؒ نے ایک اورحدیث لکھی کہ: ’’قبیلہ عبدالقیس کا وفد جب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔تو یہ عرض کیا یارسول اﷲﷺ! ہم لوگ حضور کی خدمت میں انہیں امن کے چند مہینوں میںحاضر ہو سکتے ہیں۔ ہر ضرورت کے وقت حاضری ناممکن ہے۔ کیونکہ قبائل مشرکین بیچ میں حائل ہیں ۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ایسی حتمی اورختمی بات بتادیجئے ۔ جو ہماری نجات کے لئے کافی ہو اورایک سوال شراب کے برتن کے متعلق کیا۔ حضورؐ نے حکم دیا کہ :’لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ‘‘پرایمان لائیں۔ نماز قائم کریں۔ زکوٰۃ ادا کریں۔ رمضان شریف کے روزے رکھیں اورجہاد کے مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ہمارے پاس بھیجو اورشراب کے ان چاربرتنوں کو استعمال میں نہ لاؤ ۔حنتم ،دبا، نقیر، مزفت، پھر فرمایا۔ اسے اچھی طرح یاد کر لو او ر جو نجات کا طالب ہو اسے بتادو۔‘‘
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ دین اسلام :’’لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ‘‘کی گواہی دینا۔ قیامت،فرشتوں، کتب الٰہی، انبیاء علیہم السلام اورتقدیر کوماننا، نماز ،روزہ، زکوٰۃ ،حج ، جہاد کے مجموعہ کا نام ہے۔ ان میں سے ہرایک اعتقاداً تو اسی وقت مان لئے گئے اورجو عملی چیزیں تھیں۔ وہ بھی عمل میں آگئیں۔ ایک مسئلہ قیامت کا رہ گیا۔ جو بعد میں آنے والاتھا۔ جو چیزیں کرنے یا ماننے کی تھیں۔ ان کا وقوع حضورؐ کے زمانہ میں ہوگیاتو سب کواطمینان ہوگیا اوراس کی شکل واضح ہو گئی۔
مگر جس کا وقوع نہیں ہوا اوراس پر ایمان لاناضروری تھا۔ تو وہ خوف کی چیز تھی کہ کہیں مشتبہ نہ ہوجائے۔چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ۔ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں، ’’ہم لوگ بیٹھے ہوئے مذاکرہ کررہے تھے کہ نبی کریمﷺ تشریف فرما ہوئے۔ فرمایا کیا گفتگو ہو رہی ہے؟ سبھوں نے عرض کیاقیامت کا چرچاتھا۔ آپؐنے فرمایا:’’قیامت یوں نہ آجائے گی ،جب تک اس سے پہلے یہ دس باتیں نہ ہولیں۔۱…قدرتی دھواں نکلے گا۔ ۲…دجال نکلے گا۔