بتائے جس نے قرآن کے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔
رابعاً! مرزا کو ادّعا ہے وہ مصطفی ﷺ کے قدم بقدم چل رہا ہے۔ (التبلیغ ص۴۸۳، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھتا ہے:’’ من ایات صدقی انہ تعالیٰ وفقنی باتباع رسولہ واقتداء نبیہ ﷺ فمارأیت اثر من اثار النبی الاقفوتہ ۔‘‘ بتائے تو کہ مصطفی ﷺ نے کس دن عیسائیوں کے مقابلہ معاذ اﷲ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اوران کی والدہ ماجدہ کو گالیاںدی ہیں۔
خامساً! مرزا کی اولاد نے مرزائیوں کی ا بکر کفر کاکامل ازالہ کر دیا ۔ ازالہ کی یہ عبارتیں تو کسی عیسائی کے مقابل نہیں۔ ان میں وہ کون سی گالی ہے۔ جو ضمیمہ انجام آتھم سے کم ہو۔ حتی کہ چور اورولد الزنا کا بھی اثبات ہے۔ وہاں چوری کسی مال کی نہ بتائی تھی۔ بلکہ علم کی ۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱حاشیہ، ص۲۹۰)
’’نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو یہودیوں کی کتاب طالمود سے پڑھ کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ ازالہ میںاس سے بدتر چوری معجزہ کی چوری مانی کہ تالاب کی مٹی لاکر بے پر کی اڑاتے اوراپنا معجزہ ٹھہراتے رہے۔ ولادت زنا وہ اس نے اس بائبل محرف کے بھروسے پر لکھی۔ برائے نام کہہ سکتا تھا کہ عیسائیوں پر الزامات پیش کی۔ اگرچہ مرزا کی عملی کارروائی صریحاً اس کی مکذب تھی کہ وہ اپنی رسائل میں بکثرت مسلمانوں کے مقابل اسی بائبل محرف کو نزول الیاس وغیرہ کے مسئلہ میںپیش کرتا ہے۔ مگر ازالہ میں توصاف تصریح کر دی کہ قرآن عظیم اسی بائبل محرف کی طرف رجوع کرنے اوراس سے علم دیکھنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۶م۶۱۷، خزائن ج۳ص۴۳۳)
آیت ہے:’’ فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔‘‘ ّ{یعنی تمہیں علم نہ ہو تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو۔ ان کی کتابوں پر نظرڈالو۔اصل حقیقت منکشف ہو }ہم نے موافق حکم اس آیت کے یہود ونصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا ۔ تومعلوم ہوا کہ مسیح کے فیصلے کا ہمارے ساتھ اتفاق ہے۔دیکھو کتاب سلاطین وکتاب ملاکی نبی اورانجیل تو ثابت ہوا کہ یہ توریت و انجیل بلکہ تمام بائبل موجودہ اس کے نزدیک سب بحکم قرآن مستندہے ۔ تو جو کچھ اس سے لکھا ہرگز الزاماً نہ تھا۔ بلکہ اس کے طور پر قرآن سے ثابت اورخود اس کا عقیدہ تھا۔اﷲ تعالیٰ دجالوں کا پردہ یوں ہی کھولتا ہے۔والحمدﷲ رب العلمین!
٭ …… ٭ …… ٭