بیعت معاویہؓ ہی نے لینی شروع کی تھی۔ ان حالات میں بظاہر یہی توقع تھی کہ معاویہؓ کی کوشش کامیاب ہو کر یزید پر اتفاق ہو جائے گا۔ اس لئے عبداﷲ بن عمرؓ نے اوراکثر اہل مدینہ نے منظوری دے دی۔نیز جب معاویہؓ کی خلافت پراتفاق ہو گیا اوران کی خلافت صحیح ہو گئی ۔ تو وہ واجب الاطاعت امیر بن گئے۔ اس لئے بھی منظوری ضروری تھی۔ یہ ۵۶ہجری کا واقعہ ہے۔اس کے بعد معاویہؓ چار سال زندہ رہے اور۶۰ہجری میں وفات پائی۔
ان کی وفات کے بعد اہل مدینہ کی طرف سے یزید کے پاس ایک نمائندہ جماعت گئی۔ جو عبداﷲؓ بن غسیل الملائکہ اورعبداﷲ بن ابی عمر محرومی ودیگر پر مشتمل تھی۔ یزید انہیں بڑے اکرام و احترام سے پیش آیا اورمہمان نوازی کا پورا حق ادا کیا ۔ جب یہ واپس مدینہ آئیے تو انہوں نے یزید کی حالت ابتربتلائی۔ اس کی شراب خوری وغیرہ کی شکایت کی۔اس پر مدینہ والوں نے اس کی بیعت توڑ کر بغاوت کر دی۔ مگرعبداﷲ بن عمرؓ اپنی بیعت پر قائم رہے۔کیونکہ بغیر کفر صریح کے بیعت توڑنے کی اجازت نہیں۔
لیکن یہ بڑی (مستقل حکومت والی) امارت کاحکم ہے۔ کیونکہ اس سے بغاوت میں کشت وخون کازبردست خطرہ ہے۔برخلاف چھوٹی امارت کے جس میں اس قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔ یاشاذ ونادر ہوتاہے۔ اس لئے اس میں کفر صریح کی شرط نہیں۔ بلکہ چھوٹے جرم پر بھی معزول کرسکتے ہیں۔ کیونکہ خواص کا اثر عوام پرپڑتا ہے۔ اگر خاص کی حکمت عملی صحیح نہ ہو تو عوام دلیر ہو جاتے ہیں۔ اسی بناء پر رسول اﷲﷺ نے ایک شخص کو نماز میں قبلہ کی طرف تھوکنے پر امامت سے معزول کر دیا ۔ملاحظہ ہو (مشکوٰۃ باب المساجد فصل ۳)
اوربخاری فتح الباری وغیرہ میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر سعد بن عبادہؓ جو انصار کے امیر تھے۔ انہوں نے ابوسفیان بن حربؓ کوطنزاً یہ الفاظ کہے کہ آج جنگ عظیم کادن ہے اورآج کعبہ کی حرمت اٹھا دی جائے گی۔ اس پر رسول اﷲ ﷺ نے اس کومعزول کر کے اس کے بیٹے کو امیر بنایا اورفرمایا:’’آج کعبہ کی تعظیم ہو گی اور اس کو غلاف پہنایاجائے گا۔ ‘‘
خلاصہ یہ کہ چھوٹی امارت کو بڑی امارت پرقیاس نہیں کر سکتے۔کیونکہ بادشاہ کی عملی کمزوری کااتنانقصان نہیں۔ جتنا معزول کرنے میںہے اورچھوٹے امیر کی معزولی میںاتنا نقصان نہیں جتنا عملی کمزوری میں ہے۔فتفارقا
خدا تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے ایسے اختلافات اورجھگڑوں کے موقع پر حق سمجھائے اوراس پر چلنے کی توفیق بخشے اوراسی پر خاتمہ کرے۔ آمین!