مگر یہ چیز تو مخفی نہیں رہ سکتی کہ یزید ایک اقتدارپسند دنیادار اورحریص انسان ہے اور ایسا انسان طمع نفسانی کے لئے سب کچھ کر گزرتا ہے۔اس سے عدل وانصاف کی توقع بہت کم ہے۔ اگرحضرت حسینؓسے ناراضگی تھی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک نااہل کو اس پر ترجیح دی جاتی۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ معاویہؓ کی حیات میں بظاہر یزید کی دینی حالت اتنی پست نہ تھی۔جتنی بعد میں ہو گئی۔ لیکن پھر بھی حسینؓ سے اس کو کیا نسبت تھی۔ معاویہؓ کو چاہئے تھا کہ نفس پر بوجھ ڈال کر ناراضگی کا خیال نہ کرتے ہوئے خلافت قربانی نہ کر سکے۔ البتہ یزید کو یہ وصیت کی کہ حسینؓ اگر تمہارے خلاف بھی ہو جائے ۔تو قرابت نبوی کا خیال کرتے ہوئے ان سے درگزرکرنا۔ یہ ہے صحابیت اوررسول اﷲﷺ کی دعا (کہ یااﷲ اس کو ہادی مہدی کر،مشکوٰۃ وغیرہ) کا اثرتھا۔ ورنہ ہمارے ایسے شاید اتنا بھی نہ کر سکتے۔پھر آخری وقت ان کو کچھ اس کازیادہ احساس ہوا۔تو فرماتے …کاش! میری زندگی مکہ مکرمہ میں گزرتی اور میں خلافت میں حصہ نہ لیتا۔
پھر کچھ تبرکات کا سہاراڈھونڈا۔ چنانچہ ان کے پاس رسول اﷲﷺ کے تین کپڑے تھے۔ تہ بند، قمیص، چادر اورکچھ بال …اورناخن تھے۔ وفات کے وقت وصیت کی کہ ان کپڑوں میں مجھ کفنانا اوربال اورناخن میرے نتھنوں اورمنہ میں دے دینا اور کچھ سجدے کے اعضاء پر رکھ دینا اورمجھے ارحم الراحمین کے حوالے کردینا۔ خیر جو کچھ ہوناتھا۔ ہوگیا۔ خدا معاف کرے۔ آمین!
خلاصہ یہ کہ تقرر امارت کی تین صورتوں میں ایک صورت انتخاب ہے۔ لیکن اس میں حریص آدمی اورسائل آدمی سے حتی الامکان پرہیز رکھناچاہئے۔ پھر اس میں یہ بھی شرط ہے کہ انتخاب کرنے والے اہل حل والعقد(سیاست شرعی کے ماہر) ہوں اور ان میں وہ مقدم ہیں۔ جو زیادہ متدین ہوں اور جن کی قربانیاں زیادہ ہوں۔ جیسے حضرت علیؓ نے اپنا حق فائق جتانے کے لئے معاویہؓ کو لکھا کہ مجھے ان لوگوں نے امیر انتخاب کیا ہے۔جنہوں نے ابوبکرؓ اورعمرؓکا انتخاب کیا ہے۔ یعنی انصار اورمہاجرین، اور تاریخ الخلفاء وغیرہ میں ہے کہ جب قاتلین عثمانؓ نے حضرت علیؓ کو امیر منتخب کرناچاہا ۔ تو اس وقت بھی حضرت علیؓ نے یہی جواب دیا کہ یہ حق مہاجرین اور انصار کا ہے۔ جس کو وہ امیر بنائیں گے،وہی امیر ہو گا اورعام صورت انتخاب کی یہی ہے اور احادیث میں بھی اسی کاذکر ہے۔چنانچہ مسند احمد میں حدیث ہے ۔رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:’’ تین مسلمان بھی جو جنگل میں رہتے ہوں۔وہ جب تک اپنے میں سے کسی کو اپنا امیر مقرر نہ کر لیں۔ان کا رہنا حلال نہیں۔‘‘(منتقیٰ)