متعلقہ چند مسائل
راعی اوررعیت میں کشمکش کے بہت سے اسباب ہیں۔ کوئی دینی کوئی دنیوی۔ دینی مثال کے طور پر یہی ’’تحفظ ختم نبوت کامسئلہ‘‘ ہے اوردنیوی جیسے اقتدار پسند جماعتوں میں اکثرہوتا ہے۔لیکن سب سے بڑا سبب انتخاب کا صحیح نہ ہونا ہے۔ یا انتخاب کے بعد اپنے فرائض سے ناواقفی یا غفلت ہے۔ اس لئے ہم قرآن وحدیث اور اسلامی روایات سے اس پر مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں۔ تاکہ راعی اوررعیت اپنے فرائض کو سمجھیں اورایسے حالات پیدا کرنے سے احتراز کریں ۔جو: ’’خسر الدنیا والاخرۃ‘‘ کا باعث بنیں۔ واﷲ الموفق !
تقررامارت تین طرح سے ہوتا ہے۔ ایک انتخاب سے…خواہ انتخاب قوم کی طرف سے ہو۔جیسے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو خلافت کے لئے منتخب کیاگیا۔یا مرنے والا اس کو منتخب کر جائے…جیسا حضرت عمرؓ کی خلافت …حضرت ابوبکر ؓکے انتخاب سے ہوئی اورحضرت عثمانؓ کی خلافت بھی اس کے قریب تھی۔ کیونکہ حضرت عمرؓ نے وفات کے وقت خلافت چھ صحابہ کے سپرد کی تھی کہ یہ اپنے میں سے جس کو چاہیں ،خلیفہ منتخب کرلیں۔ عثمانؓ، علیؓ،طلحہؓ،زبیرؓ، عبدالرحمن بن عوفؐ سعدؓ۔
یہ چھ صحابہ عشرہ مبشرہ سے تھے۔ یعنی دس صحابہؓ جن کے نام لے کر رسول اﷲﷺ نے ان کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ یہ چھ ان میں سے ہیں۔ آخر الذکر چار تو خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ باقی حضرت علیؓ اورحضرت عثمانؓ رہے ۔ان کوعبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا تم اپنا معاملہ میرے سپرد کر دو۔ میں جس کو چاہوں۔تم میں سے خلیفہ بنا دوں۔انہوں نے سپرد کر دیا۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کو منتخب کیا اورحضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کی خلافت قوم کے انتخاب سے ہوئی۔
چنانچہ کتب تاریخ وغیرہ میں ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنا حق فائق بتانے کے لئے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ مجھے ان لوگوں نے امیر بنایا ہے۔ جنہوں نے ابوبکرؓ،عمرؓ کو امیر بنایاتھا۔ یعنے مہاجرین اور انصار اورحضرت علیؓ کی فوقیت کے بعض اور وجوہ بھی ہیں۔ اس بناء پرحضرت معاویہؓ کی خلافت کا ابتدائی حصہ صحیح نہیں رہتا۔ البتہ حضرت علیؓ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ کی خلافت صحیح ہو گئی۔ کیونکہ قریباً سب ان کی خلافت پرمتفق ہوگئے اور حدیث میں بھی اس طرف اشارہ ہے۔
رسول اﷲﷺ نے حسنؓکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا…میرا یہ بیٹا سید ہے۔ اس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
چنانچہ اس پیشگوئی کا ظہور یوں ہوا کہ حضرت علیؓ کے بعدحضرت حسنؓ کے ہاتھ پر