نہیں اوراس سے بڑھ کر کسی مذہب کی کمزوری کیا ہوگی کہ اس کے اندر حقانیت کے دلائل تو کجا اس کی تصویر ہی سامنے نہیں۔
یہ دراصل ہماری اسلام سے دوری ،دین سے غفلت اوردنیوی تعلیمات کو اندازہ سے زیادہ اہمیت دینے کانتیجہ ہے۔ ورنہ اسلام تو ایسی واضح شے ہے۔ جو’’ آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘کی مثال ہے۔ یہ کیوں کر اخفاء میں رہ سکتاہے۔
کون نہیں جانتا کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے۔ اس کی ایک آیت بلکہ ایک لفط کا انکار بھی کفر ہے اورکلام الٰہی ماننے سے مسلمان کی تعریف سامنے آجاتی ہے۔ قرآن مجید میں … لاالہ الااﷲ…بھی ہے اور …محمدرسول اﷲ…بھی ۔اب جو اس سے ایک کامنکر ہو وہ بالاتفاق کافر ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں خاتم النّبیین بھی ہے۔اس کامنکر بھی کافر ہے۔ایسے عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا عین خدا کہنے کی وجہ سے کافر ہیں۔ اس بناء پر جو شخص محمد رسول اﷲﷺ کو عین خدا کہے ۔ یاآپؐ میں خدائی صفات مانے یا ’’اس کے نور سے تھا‘‘کہے ۔تو وہ بھی عیسائیوں کی طرح کافر ہے۔ ایسے ہی کوئی شخص …محمدرسول اﷲﷺ تو کہے ۔لیکن آپؐ نے جو خدا کی طرف سے پیغام دیا ہے۔ اس کا انکار کرے۔وہ بھی کافر ہے۔ اس بناء پر متواتر احادیث کا منکر کافر ہے۔ مثلاً پانچ نمازوں کی ۱۷رکعت سے منکر ہویا ایک رکعت میں دو سجدوں کا منکر ہو۔ یا ان کے اوقات کی اتفاقی حدود سے انکار کرے۔یااس قسم کے دیگر مسائل کا انکار کرے(جیسے منکرین حدیث) تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ قرآن مجید میں ہے:’’ومااتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا‘‘(الحشر:۷){جو رسول تمہیں دے لے لواورجس سے روکے رک جاؤ۔}
علی ہذا القیاس قرآن مجید میں جتنا غور کیاجائے۔ اتنا ہی دماغ روشن ہوتا ہے اور ایک ایک شے بتائید الٰہی آفتاب نیمروز کی طرح سامنے آجاتی ہے۔ خاص کر عقائد کے باب میں تو کلام الٰہی نے اتنی وضاحت کی ہے کہ آج تک دنیا میں نہ اتنی ہوئی ہے اورنہ قیامت تک ہو گی۔ رہا اعمال کامعاملہ ۔سو نفس اعمال کا بیان تو قریب قریب قرآن مجید میں دیا ہے۔ہاں ان کی ادائیگی کا طریقہ جو عملی چیز ہے۔ اس کو زیادہ تر تعلیم نبوی کے سپرد کر دیا۔
جیسے طبابت یاڈاکٹری یا دیگر سائنس وغیرہ کی تعلیم پانے والا صرف کتابی معلومات سے کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ تجربہ یا ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے عملی شرعی احکام کا سمجھ لینا