جنس خدا کے لئے ہے۔ }
۳… معین شے، جیسے سورئہ مزمل میں ہے:’’فعصی فرعون الرسول ‘‘{فرعون نے معین رسول موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی۔}
۴… اشیاء میں کوئی غیر معین شے،جیسے :’’تاکلہ الذئب ‘‘{بھیڑیوں میں سے کسی بھیڑیے نے یوسف علیہ السلام کو کھا لیا۔}
اب سوال یہ ہے کہ آیت خاتم النّبیین میں الف لام کون سی قسم ہے۔ آخیر کی دو قسمیں تو مراد نہیں ہوسکتیں۔ چوتھی اس لئے کہ غیر معین نبیوں کے خاتم ہونے کا کوئی مطلب نہیں اورتیسری قسم مراد ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔کیونکہ تعین کے لئے پہلے کوئی قرینہ چاہئے۔ پس پہلی دو قسمیں مراد ہوں گی اورمعنے یہ ہوا کہ آنحضرتﷺ تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔ یا حقیقت اور جنس انبیاء کے خاتم ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب کسی شے کی جنس ہی ختم ہوجائے ۔ تو اصل شے ہی خاتم ہو گئی۔ اب یہ کہنا کہ غیر تشریعی نبی پیدا ہو سکتا ہے۔اس آیت کریمہ کے صریح خلاف ہے۔
نوٹ: مرزائی بعض دفعہ کہا کرتے ہیں کہ نبوت رحمت ہے۔ رحمت بند نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن آپ صاحب شریعت نبی کا آنا خود ہی بند کر رہے ہیں۔ کیا یہ صاحب شریعت نبی رحمت نہیں۔ مرزائیوں کے دلائل ایسے ہی بے سروپا ہوتے ہیں۔ اپنی تردید آپ ہی کرتے ہیں۔ مگر ان کو پتہ نہیں لگتا۔
مغالطہ دہی
اس نمبر میں بعض بزرگان سلف اور اہل سنت کا یہ عقیدہ لکھا ہے کہ صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا۔ غیر صاحب شریعت نبی آسکتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ان بزرگوں کی عبارتوں کا غلط مفہوم لیا گیا ہے۔ مقصد ان کا یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ آئیں گے اوروہ صاحب شریعت نبی ہیں۔ مگر ان کی دوبارہ آمد صاحب شریعت کی حیثیت سے نہیں ہو گی۔ بلکہ شریعت محمدیہ پرعمل کریں گے اوربعض بزرگوں کا مقصد یہ ہے کہ خاتم النبیین کے معنے ہیں کہ رسول اﷲؐ نبوت کے درجہ میں انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔ گویا آپؐ پر نبوت کے کمالات کا خاتمہ ہوگیا اور ظاہر ہے کہ جب شے انتہائے کمال کوپہنچ جاتی ہے ۔ تو ختم ہو جاتی ہے۔ پس اس سے بھی لازم آیا کہ آپؐ کے بعد ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ یعنی نئی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ کیونکہ سارے منازل طے ہو چکے ہیں۔ اس لئے نئی نبوت کی گنجائش نہیں اور اسی بناء پرآپؐ نے سلسلہ نبوت کو مکان سے تشبیہ دیتے ہوئے خود کو آخری اینٹ فرمایا ہے۔ چنانچہ پہلے حدیث گزر چکی ہے۔