ہوں گے۔ کیونکہ نئے نبیوں کا تو اس وقت وجود ہی نہیں تھا۔ تو اس کے لحاظ سے آپؐ کو خاتم نہیں کہا جا سکتا۔
پاکٹ بک مرزائیہ مرتبہ عبدالرحمن خادم گجراتی میں خاتم النبیین کے معنے نبیوں کی زینت کے بھی کئے ہیں اورمرزا محمود نے تحقیقاتی عدالت میں جو بیان دیا ہے۔اس کی قسط مندرجہ اخبار امروز۱۸؍جنوری ۱۹۵۴ء میں بھی یہی معنے کئے ہیں۔ لیکن کسی معتبر لغت عرب سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اوربعض نے مجمع البحرین کاحوالہ دیا ہے۔حالانکہ وہ معتبر نہیں اورپاکٹ بک مرزائیہ میں مجموعہ نبہانی جز۴ کے حوالہ سے ابن معتوق شاعر کا ایک شعر پیش کیا ہے: اس شعر کے دوم مصرعہ میں لفظ ’’بل‘‘ اور اس کے بعد لفظ ’’زینۃ‘‘ سے مرزائیوں نے یہ دھوکہ کھایا ہے کہ پہلے مصرعہ میں طوق ۔تاج اورخاتم تینوں الفاظ کے معنے زینت کے ہیں۔ حالانکہ یہ کئی وجوہ سے غلط ہے۔
اوّل… ابن معتوق کا عربی ہونا ثابت نہیں اورعجمی کاکلام لغت عرب میں حجت نہیں۔
دوم… مالا عورتوں کے لئے زینت ہوتی ہے۔انبیاء علیہم السلام کی شان اس قسم کی تشبیہات سے بلند ہے۔
طوق اورتاج (مالا) بنانے کی اصل غرض زینت ہوتی ہے اورخاتم میں۔اگرچہ بالبتع زینت ہے۔ مگر خاتم کی اصل غرض قدیم دستور میں صرف مہر ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اصل لغت عرب میں خاتم کے معنے زینت نہیں آئے۔ اس سے واضح ہوا کہ شاعر نے ’’بل‘‘ کا لفظ پہلے مصرعہ کے صرف دو الفاظ طوق اورتاج کو ملحوظ رکھ کر استعمال کیا ہے ۔ نہ کہ خاتم کے لحاظ سے۔
سوئم… عربیت کی رو سے اس شعر کا معنے ہی صحیح نہیں۔کیونکہ اس شعر میں یہ کہا ہے کہ نبی اکرمﷺ صرف انبیاء کی زینت نہیں۔ بلکہ تمام بندوں کی زینت ہیں اوریہ ظاہر ہے کہ جب آپؐ انبیاء علیہم السلام کے لئے زینت ہوئے تو دوسرے لوگوں کے لئے بطریق اولیٰ زینت ہوئے۔ ایسے معنے کو لفظ ’’بل‘‘ کے ساتھ بیان نہیں کیا جاتا۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے۔ ماں باپ کو اف تک نہ کہو۔ اس سے گالی دینے کی ممانعت بطریق اولیٰ سمجھی جاتی ہے۔اس کو اگر کوئی یوں بیان کرے کہ ماں باپ کو اف نہ کہو بلکہ اس کے ساتھ گالی بھی نہ دو ۔تو یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اس سے معنے مطلب میں ترقی نہیں بلکہ تنزل ہوا۔ہاں یوں کہنا صحیح ہے کہ ماں باپ کو گالی نہ دو