M
برسوں سے سننے میں آیا تھا کہ پنجاب میں کسی مسلمان کہلانے والے نے دعویٰ نبوت ومسیحت کیا ہے۔تعجب تو سخت ہوا تھا کہ یہ کیسا مسلمان ،مسلمان اوریہ جرأت؟ مگرساتھ ہی اس کے یہ بھی سننے میں آتا تھا کہ بہادر علماء اسلام نے اس کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔اس سے مطمئن تھا کہ شیخ شیرازی نے کہا ہے :
چوکارے بے فضولی من برآید
مراد روے سخن گفتن نشاید
امسال سفر رنگون کا اتفاق ہوا اوراسی سفر میں چند مرزائیوں سے ملاقات ہوئی۔ دیکھا کہ ابتداء گفتگو میں یہ لوگ شیر کا ساحملہ کرتے ہیں اوراپنے مخاطب کو ذلیل سمجھ کر یہ گمان کرتے ہیں کہ اس کو چند منٹوں میں ہم لاجواب کر دیں گے۔اسی لئے مرزاقادیانی کے تمام دعاوی تسلیم کر کے بحث کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ مخاطب کے کلام پر ہنسے جاتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد جب میدان تنگ نظر آتا ہے تو پہلو بدل کر مرزاقادیانی کے دعووں سے دستکش ہوکر کہنے لگتے ہیں کہ یہ سب مرزا قادیانی پربہتان ہے۔نہ انہوں نے نبوۃ کا دعویٰ کیا نہ مسیحت کا۔ البتہ مجدد بکسردال اورمحدث بفتح دال تھے۔
پانچ چھ روز ہوئے کہ ایک دوست نے میرے پاس ایک پرانا رسالہ ۱۹۰۴ء کا تالیف شدہ بھیجا اورکہا کہ اس میں قرآن اوراصح الکتب صحیح البخاری سے موت مسیح ثابت کی گئی ہے۔ میں نے اس کو پڑھ کر جواب لکھا جو ہدیہ ناظرین ہے: العبد
الفقیر لمفتقر الی اﷲ عبد اﷲ بن عنایت اﷲ
مورخہ ۱۴؍جمادی الآخر ۱۳۳۹ھ
السلام علیکم! آپ کا بھیجا ہوا رسالہ الدلیل المحکم پہنچا۔ جس میں مرزائی نے قرآن مجید کی تین آیات سے حضرت مسیح ابن مریم کی موت پر استدلال کیا ہے۔
پہلی آیت :’’یاعیسے انی متوفیک ورافعک الیّ (آل عمران:۵۵)‘‘
دوسری آیت :’’وقولھم انا قتلنا المسیح عیسے ابن مریم رسول اﷲ ۰وما قتلوہ وماصلبوہ ولکن شبہ لھم ۰وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ۰ مالھم بہ من علم الاتباع الظن۰ وماقتلوہ یقینا۰ بل رفعہ اﷲ الیہ(النساء