اِس وقت بڑی سادگی سے کمپنی والے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی بتا دیتے ہیں ناجائز اور بُرا تو تب ہوتاجب کوئی بات پوشیدہ رکھی جاتی، سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح علی الاعلان بتلا کر لوگوں کا مال مختلف طریقوں سے حاصل کرنا درست ہو جائے گا ؟ بالخصوص اُس وقت جب انشورنس کے نظام کو ختم کرنے کے لئے ہی نظامِ تکافل کی خوشنمابنیاد رکھی گئی ہو؟ حالاں کہ فقہاء کی طرف سے کئی معاملات کو محض اِس وجہ سے ناجائز قرار دے دیا جاتا ہے کہ اُس میں کسی ایک فریق کو نقصان پہنچتے ہوئے دوسرے کو نفع ہی نفع حاصل ہو رہا ہوتا ہے۔
یہ چند باتیں اہلِ علم حضرات کے سامنے بطور ِ تمہید ذکر کی گئی ہیں تاکہ اس موضوع کے ہر گوشے پر سوچتے ہوئے پختہ بنیادوں پر عوام کے سامنے کوئی راہِ عمل پیش کی جا سکے۔
اِس صورت میں اِس بات سے کسی طرح مفَر ممکن نہیں کہ صحیح صورت صرف اور صرف اسلام کے حقیقی اور ابدی نظامِ کفالت ِ عامہ کا احیاء اور اس کو رواج دینا ہے اور بس۔اسلامی نظامِ کفالت عامہ کی بڑی خصوصیت یہ ہے اس کا بنیادی مقصد اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ، نقصانات کی تلافی اور اپنے خزانے کو بڑھانا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کو بطورِ کاروبار اختیار کرنا ہوتا ہے، بلکہ اس نظام کا خاصہ اور شعار یہ ہے کہ اس میں معاشرے کے تمام افراد باہم ایک دوسرے کے مددگار و معاون ہوتے ہیں اوربوقتِ ضرورت بلا کسی غرض و لالچ کے ضرورت مندوں اور مجبوروں کی حتی الوسع مدد کرتے ہیں ، یہ نہیں کہ معاشرے کے مخصوص افراد کی مدد، مخصوص حالات میں ، مخصوص مقدار میں کی جائے گی ، (جیسا کہ انشورنس اور مروجہ تکافل میں ہوتا ہے ، کہ جو جتنا چندہ یا فیس دے گا صرف اُسی کی اِس کے بقدر مدد کی جائے گی، کسی اور کی نہیں )