اس جزئیہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ منقولی اشیاء میں وقف اسی وقت جائز ہوگاجب وہ وجوہ خیر یا فقراء کے لیے وقف ہو، وقف علی النفس کے بعد نہ ہو اور اگروقف علی النفس کر لیا تووقف تو ہو جائے گا لیکن ’’علی النفس‘‘ نہ ہو گا۔
نیز! نظامِ تکافل میں موقوفٌ علیہم (پالیسی ہولڈرز)اغنیاء ہوتے ہیں (کیونکہ غرباء تو تکافل کروانے اور اس کی فیسیں بھرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے) یہ چیز اصلِ وقف کے خلاف ہے،کیونکہ وقف کا مقصود ِاصلی ہر عام و خاص کااس سے منتفع ہونا ہے،جبکہ تکافل کے تحت قائم کئے جانے والے وقف فنڈ سے منتفع ہونے والے صرف اور صرف اغنیاء ہوتے ہیں ۔
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقف فنڈ کی انتہاء (بصورتِ تحلیل ِ وقف )فقراء پر خرچ کرناہے، اس کی صورت ان کے مطبوع مواد میں یہ بتائی گئی ہے کہ
’’اگر کبھی یہ فنڈ تحلیل ہو گیا تو اس کا مصرف فقراء ہوں گے‘‘۔
بالفاظ ِ دیگر ’’وقف فنڈ قائم کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ایک خاص مدت تک [مثلاً:پچاس ، ساٹھ ،ستر،اسّی سال]اس وقف فنڈ کا مصرف اغنیاء ہوں گے اور وقف فنڈ کے تحلیل ہونے کی ’’احتمالی ‘‘ صورت میں اس کا مصرف فقراء ہوں گے‘‘۔
(احتمالی اس لئے کہا گیا کہ اس وقف فنڈکو تحلیل ہونے سے بچانے کے لئے کمپنی اس وقف فنڈ کو قرضہ حسنہ دیتی ہے،اور ایسا اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پالیسی ہولڈر کسی صورت میں اس بات کے لئے تیا ر نہ ہو گا کہ بوقت ضرورت اس کی مدد نہ کی جائے ،اُن (پالیسی ہولڈرز)کو وقف کی شرعی قیودات اور شرائط سے کوئی غرض نہیں اُن کو تو صرف اِس سے غرض ہوتی ہے کہ اُن کے نقصان کی تلافی کی جائے،چنانچہ اگر کمپنی وقف فنڈ کو قرضِ حسنہ نہ دے تواس صورت میں ان کا سارا نظام ہی ٹھپ ہو جائے گا )۔