دوسرے الفاظ میں وقف علی النفس بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ نقود میں شرعاً متصور نہیں ۔
(لا یجوز وقف ما ینقل و یحول … وقال محمد رحمہ اللہ یجوز حبس الکراع والسلاح) معناہ: وقفہ في سبیل اللہ، و أبو یوسف رحمہ اللہ معہ فیہ علی ماقالوا ، وہو استحسان ، و القیاس أن لا یجوز ؛ لما بیناہ من قبل (من شرط التأبید والمنقول لا یتأبد ) وجہ الاستحسان الآثار المشہورۃ فیہ (أي: في الکراع والسلاح ) وعن محمد رحمہ اللہ : أنہ یجوز وقف ما فیہ تعامل من المنقولات کالفأس والمر والقدوم والمنشار والجنازۃ و ثیابھا و القدور والمراجل والمصاحف ۔ وعند أبي یوسف ؒ لا یجوز ؛ لأن القیاس إنما یترک بالنص، والنص ورد في الکراع والسلاح ، فیقتصر علیہ ، ومحمد ؒ یقول: القیاس قد یترک بالتعامل کما في الاستصناع، وقد وجد التعامل في ہٰذہ الأشیاء۔
(الھدایۃ،کتاب الوقف : ۴؍۳۹۹، ۴۰۰، مکتبۃ البشریٰ)
ولا یجوز وقف ما ینقل و یحول لأنہ لا یبقیٰ علی التأبید فلا یصح وقفہ ……قال في الواقعات: ’’إذا وقف ثوراً علی أھل قریۃ للإنزاء علی بقرھم ، لا یصح؛ لأن وقف المنقول لا یصح إلا فیما فیہ تعارف ٌ ولا تعارف في ھٰذا‘‘۔