جذبہ لے کر لوٹے۔
پھر جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصص کے نگران جناب مفتی رفیق احمد صاحب بالاکوٹی زید مجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان کے سامنے اب تک کی محنت کا خلاصہ ،ملاقاتوں کی کارگذاری اور اپنے کام کا خُطّہ(خاکہ) پیش کیا،حضرت کے مشورے سے اس میں کچھ تبدیلی کی ،پھر جناب مفتی صاحب نے حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی صاحب شہید رحمہ اللہ کے مقالہ’’شرکات التکافل اور درپیش مسائل کا جائزہ‘‘ کی کاپی بھی دی ،اور یہ بھی فرمایا کہ کام کے دوران مشکل مسائل کے حل میں ملک کے مختلف دارالافتاؤں سے فتاوی حاصل کر کے ان کی آراء بھی اپنے سامنے رکھیں ۔
اس کے علاوہ لاہور کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ کے رئیس دارالافتاء جناب مفتی حمید اللہ جان صاحب دامت برکاتہم العالیہ ،جامعہ خیر المدارس ملتان کے رئیس دارالافتاء جناب مفتی عبداللہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور ادارۃالغفران ٹرسٹ راولپنڈی کے دارالافتاء والتحقیق کے رئیس جناب مفتی محمد رضوان صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے بھی فون پر اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو ہوئی، جناب مفتی حمید اللہ جان صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا فرمانا تھا کہ یہ بعینہ انشورنس ہی ہے صرف اصطلاحات کے بدلنے سے معاملات کی حقیقت نہیں بدل جاتی ، انہوں نے فرمایا کہ ان کے نظام کی بنیاد ’’شرط الواقف کنص الشارع‘‘ ہے،حالانکہ اس میں دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ’’ شرط الواقف ‘‘ بھی شریعت کے مطابق ہے یا نہیں ۔
بعد ازاں جامعہ احسن العلوم کراچی میں ’’مروجہ اسلامی بینکاری ‘‘کے ایک