مقصد یہ ہوتا ہے، کہ میری موت کے بعد میرے بچوں کی کفالت کے لیے ان کے پاس بیس لاکھ ہونا چاہیئے اورکسی کے پیشِ نظر کسی اور قسم کے متوقع نقصان کا ازالہ کرنا ہوتا ہے۔
٭ صرف وہی لوگ پالیسی حاصل کرنے کے اہل شمار ہوتے ہیں جو عمر و صحت اور آمدن کے لحاظ سے کمپنی کے معیار پر پورے اترتے ہیں ،باقاعدہ طبی معائنہ کے ذریعہ ایک اندازہ کیا جاتا ہے ، اگر کسی چیز کے متوقع نقصان کی تلافی مقصود ہو تو اس چیز کی حالت بھی دیکھی جاتی ہے۔
٭ پالیسی کی زیادہ سے زیادہ مدت کیا ہو گی، یہ فیصلہ خواہش مند نے خود کرنا ہوتا ہے، جب کہ کم از کم مالیت خود کمپنی طے کرتی ہے۔
٭ایسے ہی پالیسی کی زیادہ سے زیادہ مدت کمپنی طے کرتی ہے، البتہ کم سے کم مدت کا تعین وہ شخص خود بھی کر سکتا ہے، یا د رہے کہ کمپنی کی جانب سے پالیسی ہولڈر کو دی جانے والی رقم کا انحصارانہی دو باتوں پر ہوتا ہے۔
٭ چونکہ تکافل فنڈ کا انتظام و انصرام کمپنی کے ذمہ ہوتا ہے اس لیے کمپنی اس کی باقاعدہ فیس لیتی ہے، جس کو وکالہ فیس کہا جاتا ہے۔
٭ پالیسی کی رقم عموماً سالانہ اقساط میں جمع کروائی جاتی ہے، جب کہ شش ماہی یا سہ ماہی اقساط میں بھی جمع کروائی جا سکتی ہے۔
٭ پالیسی ہولڈر کی قسط سے سب سے پہلے ایلوکیشن فیس منہا کی جاتی ہے، یہ فیس پالیسی کی مالیت اور مدت کو مدنظررکھ کر لی جاتی ہے۔ پہلی قسط سے ایک خطیر رقم اس مد میں چلی جاتی ہے۔ مثلاً: اگر پالیسی کی مدت ۲۰ سال یا اس سے زیادہ ہو اور قسط پندرہ سے پچیس ہزار تک ہوتو پاک قطر فیملی تکافل پہلی سالانہ قسط سے ۸۰ فی صد ، دوسری سے ۲۰، تیسری سے ۱۰، چوتھی سے ۷، پانچویں سے بھی ۷، اور چھٹی سے لے کر دسویں قسط تک تین فی صد وصول