’’اس آیت میں مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی جس دوستی کا ذکر ہے، وہ نصرت، اخوت اور محبت سب دوستیوں کو شامل ہے‘‘۔ (تفسیر المنار: ۱۰؍۴۷۰)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، اچانک ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا،یعنی اپنی ضرورت کی چیز تلاش کرنے لگا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
((من کان معہ فضل ظھر فلیعد بہ علی من لا ظھر لہ ومن کان لہ فضل من زادٍ فلیعد بہ علی من لا زاد لہ))۔ (صحیح مسلم: ۱۷۲۸)
’’جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ، اور جس کے پاس زائد راشن ہو اور اس کو دے دے جس کے پاس راشن نہیں ‘‘۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مال جو اَصناف کیں ،سو کیں ؛ یہان تک کہ ہم نے سمجھا کہ زائد مال میں ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے ‘‘۔
اسلام کہتا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو دنیا بھرکے مسلمان اس وقت تک بے چین رہیں جب تک اس کی تکلیف رفع نہ ہو جائے۔
٭ آپ ﷺ نے بڑی عمدہ مثال بیان کرکے اس کو یوں سمجھایا :
((تریٰ المؤمنین في تراحمھم وتوادّھم وتعاطفھم کمثل الجسد إذا اشتکیٰ عضوا تداعیٰ لہ سائر جسدہ بالسھر