کے عوض کرایہ پر لے لے ۔(الفتاویٰ الہندیہ) اس پر مضاربت کو قیاس کیا جا سکتاہے، اگرچہ اس کی تصریح مجھے فقہاء کے کلام میں نہیں ملی‘‘۔
مولانا عثمانی مدظلہ کی اس بات پر ہم نے لکھاتھا:
’’یہ بات غور طلب ہے کہ فقہاء نے ناظر کے لیے وقف کی زمین کو اجرت پر لینے کے جواز کی تصریح کی اور ناظر کے مضارب بننے کی تصریح نہیں کی۔ آخر ان دونوں میں کچھ فرق ہو گا تب ہی تو فقہاء نے بظاہر فرق رکھا ہے۔
اور وہ فرق یہ ہے کہ وقف اراضی کوئی غصب کر لے تو اگرچہ وہ اجرت پر دینے کے لیے نہ ہو تب بھی غاصب کو اس کی اجرتِ مثل دینی ہوتی ہے۔اسی طرح اگر ناظر یا متولی وقف کی اراضی کو خود اجرت پر لے لے تو اگرچہ وہ معروف طریقے پر اجارہ نہیں ہے، لیکن اجرت ِ مثل واجب ہونے کی وجہ سے اس کو مجازاً اجارہ کہہ دیا، مضاربت میں حقیقی یا مجازی کوئی بھی صورت نہیں بنتی، اس لیے مضاربت کو اجارہ پر قیاس کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔ (جدید معاشی مسائل،ص: ۱۲۸، ۱۲۹)
ہماری اس بات کے جواب میں مفتی عصمت اللہ صاحب اور مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب دو باتیں لکھتے ہیں :
۱۔’’ یہ بات صحیح ہے کہ فقہاء کرام نے متولی وقف کو صرف اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ مالِ وقف کو اجرت پر دے، مالِ