کے تحفظ اور ذمہ داریوں کی ادائیگی اور معاملات کی تعبیر کے لیے اس کو شخصِ حقیقی یعنی متولی کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا حقیقت میں تو کمپنی جو کہ شخصِ قانونی ہے دوسرے شخصِ قانونی یعنی وقف فنڈ کی متولی نہیں بن سکتی۔ ان دونوں کے متولی تو ڈائریکٹرز بن سکتے ہیں ، جو اشخاص ِ حقیقی ہیں ۔ اب وہ ڈائریکٹرز جب ایک شخص ِ قانونی کو رب المال اور دوسرے شخصِ قانونی کو مضارب بناتے ہیں اور دونوں کے متولی وہ خود ہیں ، تو در حقیقت وہ خود ہی رب المال بھی بنتے ہیں اور خود ہی مضارِب بھی بنتے ہیں ۔ کیوں کہ دونوں (شخصِ قانونیوں ) کے مُعبِّر وہ خود ہیں ، اور یوں کہتے ہیں کہ ہم روپیہ مضاربت پر دیتے ہیں اور ہم مضاربت پر لیتے ہیں ۔ اور چوں کہ کمپنی کے اِن ڈائریکٹرز کو عام طور سے کمپنی کہہ دیا جاتا ہے، اس لیے ہمارا یہ کہنا درست ہے کہ یہاں کمپنی خود ہی رب المال ہے اور خود ہی مضارِب ہے۔
مولانا تقی عثمانی مدظلہ کا خیال ہے کہ
’’ والظاھر أنہ لا مانع من کونھا متولیۃ للوقف و مضاربۃ في أموالھا في وقتٍ واحدٍ…… فإن الفقھاء أجازوا لناظر الوقف أن یستأجر أرض الوقف بأجرۃ المثل عند بعضھم وبما یزید علی الأجرۃ المثل عند الآخرین (الفتاویٰ الھندیۃ:۲؍۴۲۱) فیمکن أن تقاس علیہ المضاربۃ وإن لم أرہ في کلام الفقھاء بصراحۃ‘‘۔
’’ ترجمہ: ظاہر یہ ہے کہ کمپنی ایک ہی وقت میں وقف فنڈ کی متولی بھی ہو اور اس کے اموال میں مضارب بھی ہو، اس سے کوئی مانع نہیں ہے، ……کیوں کہ فقہاء نے وقف کے ناظر کے لیے یہ جائز بتایا ہے کہ وہ وقف کی زمین کو خود اجرتِ مثل یا اس سے زائد