اولیٰ گنجائش ہو گی۔
کما ھو مذکور في الشامیۃ، ’’قولہ:ولا من یقبلہ مضاربۃ إلخ۔ في البحر عن جامع الفصولین: إنما یملک القاضي إقراضہ إذا لم یجد ما یشتریہ لہ یکون غلۃ للیتیم لا لو وجدہ أو وجد من یضارب لأنہ أنفع…… وما قیل إن مال المضاربۃ أمانۃ غیر مضمون فیکون الإقراض أولیٰ، فھو مدفوع بأن المضاربۃ فیھا ربح بخلاف القرض‘‘۔ج:۴، ص: ۴۸۷۔مطلب للقاضي إقراض مال الیتیم نحوہ۔
جہاں تک اس خیال کاتعلق ہے کہ اس سے کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے، یہ درست نہیں ، بلکہ اس صورت میں وقف فنڈ کا پول جو کہ شخص قانونی ہے، وہ رب المال ہوتا ہے اور کمپنی مضارب ہوتی ہے، لہٰذا جس خرابی کی وجہ سے آپ اسے ناجائز سمجھتے ہیں ، وہ یہاں موجود نہیں ، تا ہم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے اس صورت کے جائز ہونے پر جزم نہیں فرمایا، بلکہ صرف اپنی رائے پیش فرمائی ہے، اور اس رائے پر عدمِ اطمینان کی صورت میں دوسر ا متبادل پیش فرمایاہے، جیسا کہ حضرت مد ظلہم آگے لکھتے ہیں :
’’ ولئن کان ھناک شک في جمع الشرکۃ بین تولیۃ الوقف بین المضاربۃ…إلخ‘‘۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت نے اوّلاً اجارے پر قیاس کرتے ہوئے اس کی گنجائش سمجھی ، تاہم عدمِ اطمینان کی سورت میں ایسا متبادل پیش فرمایا، جس میں مذکورہ خرابی نہیں ۔ البتہ یہ واضح رہے کہ آج کل اکثر تکافل کمپنیاں حضرت کے مقالہ میں ذکر کردہ