لیکن اسلامی تکافل کے اندر اس غیر یقینی کیفیت سے عقد ناجائز نہیں ہوتا، کیوں کہ اس کی بنیاد عقدِ تبرع پر ہے اور تبرعات کے اندر غیر یقینی کیفیت (Uncertainty)کا پایا جانا ممنوع نہیں ، جب کہ عقودِ معاوضہ کے اندر ممنوع ہے۔
ا س کو بذریعہ مثال یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ مثلاً میرے پاس ایک تھیلی میں کچھ رقم ہے، میں کسی دکاندار سے ایک پنکھا خریدتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں کی اس کی قیمت وہ رقم ہے جو اس تھیلی کے اندر ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ صورت ناجائز ہے، کیوں کہ دکاندار کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس میں کتنی رقم ہے، لہٰذا اس کے اعتبار سے قیمت مجہول (غیر معلوم)ہے اور بیع کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بیچی جانے والی چیز کی قیمت فریقین کو معلوم ہو، لیکن اگر میں کسی طالبِ علم سے یہ کہتا ہوں اگر آپ امتحان میں اول آگئے تو جو رقم اس تھیلی میں ہے وہ تمہیں انعام کے طور پر دوں گا، تو یہ صورت جائز ہے، حالاں کہ یہاں بھی جہالت اور غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) موجود ہے، لیکن چوں کہ یہ عقدِ تبرع ہے ، اس لیے یہاں جہالت اور غیر یقینی کیفیت(Uncertainty) کا پایا جانا ممنوع نہیں ۔ ا س طرح جب ہم نے انشورنس کا ڈھانچہ بدل دیا تو یہاں پر بھی غیر یقینی کیفیت پائے جانے کے باوجود معاملہ ناجائز نہیں ہو گا۔ (تکافل،ص:۱۲۱، ۱۲۲)