اس پر ہونے والے اشکال کا جواب یہ دیا کہ ’’ وقف کرنے والا چندے کی شرط لگا سکتا ہے، لہٰذا صرف وقف کو چندہ دینے والا ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ‘‘۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ واقف کے شرط لگانے سے ہی شرط وجود میں آتی ہے اور انتفاع مشروط بنتا ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ ممثل مشروط نہیں ہے، جبکہ ممثل لہ مشروط ہے حالاں کہ ممثل کوبھی مشروط کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے جواب سے صمدانی صاحب نے کنی کترائی ہے۔
2 - صمدانی صاحب کے یہ الفاظ ’’اس وقف سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، جو اس وقف کو عطیہ دیں ‘‘ اس پر واضح دلیل ہیں کہ یہ عقد معاوضہ (Commutataive deal) ہے،کیوں کہ وقف فنڈ اور پالیسی ہولڈر آپس میں عوض کے طور پر لین دین کرتے ہیں اور
۱۔ عقود میں اعتبار معانی کا ہوتا ہے، الفاظ کا نہیں ۔
۲۔ وقف شخصِ قانونی ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ ’’تم مجھے چندہ دو گے تو حادثہ کی صورت میں ، میں تمہیں تلافی کی رقم دوں گا ، اور تھوڑا چندہ دو گے تو تھوڑی تلافی کروں گا، زیادہ دو گے تو زیادہ کروں گا‘‘۔
اگر مولانا تقی عثمانی مدظلہ اور صمدانی صاحب اس پر اصرار کریں کہ چندہ تو ہدیہ وعطیہ ہے، اس میں عوض کا کوئی معنیٰ نہیں اور پالیسی ہولڈر کے نقصان کی تلافی وقف کی شرط کی وجہ سے ہے، تو یہ عجیب چکر ہے۔ ان کی بات اس وقت تو متصور ہو سکتی ہے، جب کوئی محض نیکی کا کام سمجھ کر وقف فنڈ میں چندہ دے اور تکافل یا انشورنس کا اس کو کچھ پتہ نہ ہو یا اس سے آئندہ انتفاع کا واقعی کچھ ارادہ نہ ہو۔ پھر اتفاق سے حادثہ کی صورت میں اس کو تکافل کمپنی نے یا کسی اور نے بتایا کہ تم تو فلاں وقف فنڈ سے نقصان کی تلافی کے حق دار ہو، لیکن جہاں پہلے ہی باہمی معاملہ کے سارے شرائط و ضوابط طے کیے جاتے ہوں اور کوئی بھی