وثیابھا والقدور والمرجل والمصاحف وعند أبي یوسفؒ لا یجوز لأن القیاس إنما یترک بالنص والنص ورد في الکراع والسلاح فیقتصر علیہ ومحمدؒ یقول: القیاس قد یترک بالتعامل، کما فی الاستصناع وقد وجد التعامل في ہذہ الأشیاء(ہدایہ)۔
جب منقولہ اشیاء میں وقف کے ثبوت کی بنیادیں ہی جدا ہیں تو ان میں غیرمنقولہ جائیداد کے وقف کے ایک حکم یعنی وقف علی النفس کو جاری کرنا یا تو قیاس سے ہوگا یاا ستحسان سے ہوگا، استحسان صرف گھوڑے اور ہتھیار میں ہے کسی اور منقولہ شے میں نہیں ہے۔
رہا قیاس تو وہ ممکن ہی نہیں کیونکہ منقولہ وغیرمنقولہ میں فارق موجود ہے یعنی یہ فرق ہے کہ غیر منقولہ جائیداد ابدی و دائمی ہوتی ہے اور منقولہ شے عارضی و غیر دائمی ہوتی ہے اورقربت مطلوبہ و مقصودہ تک اس کا پہنچنا مخدوش و مشکوک ہوتا ہے۔
تنبیہ : یہاں ہم نے قربتِ مطلوبہ و مقصودہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقف علی النفس کی صورت میں دو قسم کی قربتیں ذکر کی جاتی ہیں ایک وہ جو وقف ہونے کی وجہ سے لازمی ہے، ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں ۔
لأن الوقف یصح لمن یحب من الأغنیاء بلا قصد القربۃ وھو وإن کان لأبد في آخرہ من القربۃ بشرط التابید وھو بذلک کالفقراء ومصالح المسجد۔(فتح القدیر)
ترجمہ :ـ قربت کے قصد کے بغیر وقف اغنیاء کے حق میں بھی صحیح ہوتا ہے اگرچہ اغنیاء کے بعد ابدیت کی شرط کے ساتھ قربت کے لئے مثلاً اس کا فقراء کے لئے ہونا یا مصالح مسجد کے لئے ہونا