سکتی ہے یا نہیں۔ہم یہاں جس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اس مذہب کی تبلیغ وتلقین اور’’مدافعت اسلام‘‘ کے وہ مقاصد اورمحرکات ہیں ۔جو بانی مذہب نے خود بیان کئے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی یہ نام نہاد’’خدمت دین‘‘ کسی قدر کی مستحق رہ جاتی ہے۔اس پر بھی اگر کوئی شخص اس خدمت دین کی حقیقت نہ سمجھ سکے تو ہم اس سے گزارش کریں گے کہ ذرا قادیانیوں کے اپنے ان اعترافات کو آنکھیں کھول کر پڑھے:
’’عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً ایک لائبریری میں ایک کتاب ملی جو چھپ کر نایاب بھی ہوگئی تھی۔اس کتاب کامصنف ایک اطالوی انجینئر جو افغانستان میں ذمہ دار عہدہ پرفائز تھا۔وہ لکھتا ہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب(قادیانی) کو اس لئے شہید کیاگیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اورحکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہوگیاتھا کہ اس سے افغانوں کا جذبہ حریت کمزور ہو جائے گا اوران پرانگریزوں کا اقتدار چھاجائے گا۔ایسے معتبرراوی کی روایت سے یہ امر پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب خاموشی سے بیٹھے رہتے اور جہاد کے خلاف کوئی لفظ نہ کہتے تو حکومت افغانستان کو انہیں شہید کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ ‘‘
(مرزا بشیرالدین محمود احمد کا خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل مورخہ۶؍اگست ۱۹۳۵ئ)
’’افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا ہے ۔کابل کے دو اشخاص ملاعبدالحلیم چہار آسیانی وملاانورعلی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکارہے تھے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اوردعویٰ دائر ہو چکا تھا اورمملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ لگ چکے تھے۔‘‘ (اخبار الفضل بحوالہ امان افغانستان مورخہ۳؍مارچ ۱۹۲۵ئ)
’’روسیہ (یعنی روس ) میں اگرچہ تبلیغ احمدیت کے لئے گیا تھا ۔لیکن چونکہ سلسلہ احمدیہ اوربرٹش گورنمنٹ کے باہمی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔اس لئے جہاں میں اپنے سلسلے کی تبلیغ کرتا تھا۔ وہاں لازماًمجھے گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری بھی کرنی پڑتی تھی۔ ‘‘
( بیان محمد امین قادیانی مبلغ مندرجہ اخبارالفضل مورخہ۲۸؍ستمبر۱۹۲۲)
’’دنیا ہمیں انگریزوں کاایجنٹ سمجھتی ہے۔چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ