فتنہ مرزائیت کے بارہ میں کہا ہے کہ ہم نے مرزائیت کو پوری طرح دفع کر دیا ہے۔ ہم نے قادیانیت کے خلاف پوری قوت صرف کر دی ہے اوراس ٹولہ کو بتادیا ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی جگہ کاوفادار رہ سکتا ہے۔وہ یا تو آزاد کشمیر سے تعلق جوڑ سکتا ہے، یا ربوہ سے رشتہ رکھ سکتاہے۔ ایک وقت میں دو حاکموں کی تابعداری اوردو جماعتوں سے وفا ممکن نہیں۔ جہاں تک مرزائیت کو کشمیر میں دخل انداز ہونے سے روکنے کا تعلق ہے ۔ہم ہر حد تک مقابلہ کو تیار ہیں۔ ظاہر ہے کہ مرزائیوں سے متعلق یہ فیصلہ کن عزائم مسلمانان ریاست جموں وکشمیر کی واحد سیاسی تنظیم آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی اساس وبنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں امت مرزائیہ کے لئے سوائے اس کے اورکوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو کشمیر کے معاملہ میں دخل درمعقولات سے دست بردار ہوکر ہمیشہ کے لئے قصر گمنامی میں روپوش ہو جائیں اور یا پھر اپنے شیطانی ترکش کے تیر مسلم کانفرنس کی موجودہ قیادت پر برساکر اپنی آتش حسد وانتقام کو بجھائیں۔ چنانچہ مؤخر الذکر اورآخری چارئہ کار ان دنوں اس بدباطن گروہ نے اختیار کر رکھا ہے۔ مسلم کانفرنس کی صدارت کے انتخاب جدید کی بے ہنگم غوغا آرائی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو مجذوب کی بڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ جب کہ ایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان سے بھی یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ کے انتخابات ۱۹۴۶ء کے بعد اب تک نہیں ہوسکے۔حالانکہ قیام پاکستان کے بعد حالات معمول پر آئے چار سال ہوچکے ہیں۔لیکن اب تک مجلس دستور ساز یا کسی صوبائی مجلس قانون ساز کے انتخابات نہیں ہوئے لہٰذا کشمیر کی تحریک آزدی کی تکمیل سے پہلے اس قسم کے انتخابات کے مطالبے کرنا اوراس تعلق میں خود ساختہ اوراضطراب انگیز افواہیں پھیلانا نہ صرف احمقوں کی جنت میں بسنے والے عقل باختہ افراد کو زیب دیتا ہے بلکہ قومی و ملکی مصالح کی رو سے ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جس کا مرزائی ٹولہ دھڑلے سے مرتکب ہورہا ہے۔ قارئین کرام کو یاد ہو گا کہ اس سے پہلے ایک بار مرزائی پتے بازوں نے آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے اوراس کے نمائندے مرکزی مجلس دستور ساز پاکستان میں لئے جانے کا شوشہ چھوڑاتھا۔جس کا بالفاظ دیگر یہ مدعا تھا کہ کشمیر کی موجودہ عارضی حد بندی کو عملاً مستقل حیثیت دے دی جائے ۔اس غایت درجہ مہلک فریب کاری کا پردہ عزت مآب لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے واہ کیمپ میں بدوران تقریر چاک کردیاتھا۔