یعنی وہ احادیث کہ جن میں ظہور مہدی کے لئے استدلال کیا جاتا ہے۔ وہ صحیح ہیں۔ جن کو امام ترمذی امام ابوداؤد ،امام احمد وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک عبداﷲ بن مسعودؓ کی یہ روایت ہے جس میں امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی ہو تو اﷲ تبارک
حاشیہ گزشتہ صفحہ: ’’وعلی ھذا لاصل اعتقدنا فی شیخ الاسلام ابن تیمیہ انا تحققنا من حالہ انہ عالم بکتاب اﷲ ومعانیہ اللغویۃ والشرعیۃ وحافظ لسنۃ رسول اﷲ و آثار السلف عارف بمعانیہ اللغویۃ والشرعیۃ استاذ فی النحور اللغۃ محرر لمذھب الحنابلہ وفروعہ واصولہ فائق فی الذکاء ذولسان وبلاغۃ فی الذب عن عقیدۃ اھل السنۃ لم یوثر عنہ فسق ولا بدعۃ(الی ان قال) فمثل ھذا الشیخ عزیز الوجود فی العلم ومن یطیق ان یلحق شاوہ فی تحریرہ وتقریرہ والذین ضیقوا علیہمابلغوامعشار مااتاہ اﷲ تعالیٰ (تاریخ دعوت وعزیمت لابی الحسن علی الندوی ص۱۷۹تا۱۸۰ج۲)‘‘اورعلامہ ذہبی کے معجم شیوخ سے ابن عماد حنبلی نے شذرات الذہب میں ان کا یہ قول امام ابن تیمیہ کے بارے میں نقل کیا کہ ’’وھو اکبر من این ینبہ علی سیرتہ مثلی فلو حلفت بین الرکن والمقام لحلفت انیمارایت یعینی مثلہ وانہ مار اع مثل نفسہ (ص۸۲ج۶)‘‘اوراسی شذرات میں ابن سیدالناس کا یہ قول بھی منقول ہے کہ ’’لم یراوسع من نحلۃ ولا ارفع من درایتہ برزفی کل فی علی ابناء جنسہ ولم ترعین من راہ مثلہ ولا رأت عینہ مثل نفسہ (ص۸۲ج۶)‘‘اورذہنی کا یہ قول بھی ان کی تاریخ کبیر کے حوالے سے شذرات الذہب میں منقول ہے کہ ’’یصدق علیہ ان یقال کل حدیث لایعرفہ ابن تیمیہ فلیس بحدیث(ص۸۲ج۶)‘‘اورشیخ عماد الدین کا قول ہے کہ ’’فواﷲ ثم واﷲ لم یرتحت ادیم السماء مثل شیخکم ابن تیمیہ علماوعملا وھالا وخلقاء واتباعا وکرماوحلماوقیما فی حق اﷲ…الخ (ص۸۳ج۶)‘‘اورامام تقی الدین بن دقیق العید کا یہ قول ہے کہ کسی نے جب ان سے پوچھا کہ ابن تیمیہ کو کیسے پایا تو فرمایا:’’رایت رجل اسائرالعلوم بین عینیہ یاخذماشاء منھا ویترک ماشاء (ص۸۳ج۶)‘‘اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے درر کامنہ میں امام ابن تیمیہ کا طویل ترجمہ لکھا ہے اوران کے معاصرین کے ان اقوال کاذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو(دررکامنہ ازص۱۶۸تا۱۸۷ج۱)طبقات حنابلہ میں ابن رجب نے ابن دقیق العید کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جب ابن دقیق العید کی ملاقات ابن تیمیہ سے ہوئی تو فرمایا کہ :’’ماکنت اظن ان اﷲ بقی یخلق مثلک (۳۹۲ج۲)‘‘طبقات حنابلہ میں ابن رجب نے مختلف علماء کے اقوال ان کی توصیف میں نقل کئے ہیں۔(ملاحظہ ہو از ص۳۸۷ تا۴۰۸ ج۲)اورابن کثیر جو ان کے شاگرد اورہم عصر بھی ہیں لکھتے ہیں:’’فصاراامامافی التفسیر ومایتعلق بہ عارفا بالفقہ فیقال انہ کان اعرف بفقہ المذاھب من اھلھا الذین کانوا فی زمانہ وغیرہ(الی ان قال)واما الحدیث فکان حامل رایتہ حافظ لہ ممیزا بین صحیحہ عارفا برجالہ متطعا من ذالک…الخ (البدایہ والنھایہ ص۱۳۷ج۱۴)‘‘