دانشمند وکیل کی وکالت چمکے ،جو ان کی شکم پروری کاواحد کفیل تھا۔ اس کے علاوہ یہ لوگ سادہ لوح دیہاتیوں کی لڑکیوں کی تعلیم تبلیغ اوردولت کادلاسہ لگا کر ورغلانے اورپھر قادیان لے جا کر ٹھکانے لگانے یعنی دام کھرے کرنے کا مدتوں کاروبارکرتے رہے۔اس ذلیل کاروبار میں سرکار قادیان کا ایک یک چشم ملا مبلغ محمد حسین بھی شریک تھا۔ جو اپنی حرافہ بیوی کے توسط سے نوعمر لڑکیوں کو ورغلانے اوبہکانے کے فن میں مہارت رکھتا تھا اور ہر پھیرے ایک دولڑکیاں اغواء کر کے قادیان لے جاتا تھا۔ ایک دومرتبہ پولیس کے ہتھے بھی چڑھا ۔لیکن اپنے رفقائے کار کی کوشش سے صاف بچ کر نکل گیا۔ چنانچہ آج کل جوان گنتی کے چند مرتدین ومنافقین پرہن برس رہا ہے اور وہ مسلمانوں کے متاع ایمان کو خریدنے کی ڈینگیں ہانکتے نظر آتے ہیں یہ اغواء بردہ فروشی اور پھر ضمیر فروشی سے ہتھیائی ہوئی حرام کی کمائی کاکرشمہ ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان کا ایک پست ہمت بھائی آج بھی ’’دو پیسے پاؤ‘‘کا نام نہاد حلوہ بیچ کر بسر اوقات کر رہا ہے۔ خیر یہ تو تھا ایک جملہ معترضہ ۔حق بات تو یہ ہے کہ انگریز بہادر کے خود کاشتہ پودے قادیانی نبی کے یہ ذلیل چیلے ایمان کی پونجی بیچ کر دنیاوی مال ودولت اکٹھی کرچکے ہیں اور اپنے آقایان نعمت کے ادنیٰ اشارہ پر شیرازہ ملت کو برہم کرنے اورکشمیر کا سودا چکا کر قادیان کو حاصل کرنے کے لئے رقص ابلیس میں مصروف ہیں۔
جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ظاہرکیاجاچکا ہے۔ یہ فتنہ سامانیاں کوٹلی کے چندملعون مرزائیوں اوران کے زرخرید ایجنٹو ں کے بس کی بات نہیں ۔بلکہ ان کا تعلق مرزا بشیر الدین اوران کے پورے ٹولہ سے ہے۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو بالعموم اورکوٹلی ضلع میر پور کے مسلمانوں کو بالخصوص اس حقیقت سے واقف کردیا جائے کہ مرزائیت کا ظہور کس تاریخی پس منظر میں ہوا۔مرزائیت کے معرض وجود میں آنے کی غرض وغایت کیاتھا اورقیام پاکستان کے سلسلے میں مرزائیوں نے کس کس طرح رخنہ اندازیاں کیں اورکشمیر کی آزادی کے راستہ میں کیوں اورکب سے حائل ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے خاص خاص حربے کیا ہیں۔ اوران سے بچنے کے لئے عامۃ المسلمین کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ یہ سب کچھ اگرچہ بڑی تفصیل چاہتا ہے تاہم کوشش کی جائے گی کہ مختصر طور پر ان ساری باتوں پر آئندہ صفحات میں روشنی ڈالی جائے۔
فرنگی عہد کی پیداکردہ عام خرابیوں میں ایک سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نقصان دہ خرابی ہندی مسلمانوں کی تعلیمات اسلامیہ سے بے گانگی ہے۔یہ دو صد سالہ دور غلامی جہاں