میں ایک نئی نبوت کا اعلان کرکے اختیار کی ہے۔خود حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کا لحاظ رکھتے ہوئے آئینی قدم اٹھائے اور اس کا انتظار نہ کرے کہ مسلمان کب مطالبہ کرتے ہیں اورمجھے اس احساس میں حکومت کے سکھوں کے متعلق رویہ سے بھی تقویت ملی۔ سکھ ۱۹۱۹ء تک آئینی طور پر علیحدہ سیاسی جماعت تصور نہیں کئے جاتے تھے۔لیکن اس کے بعد ایک علیحدہ جماعت تسلیم کر لئے گئے۔ حالانکہ انہوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیاتھا۔بلکہ لاہو ر ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ سکھ ہندو ہیں۔ اب چونکہ آپ نے یہ سوال پیدا کیا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کے متعلق جو برطانوی اورمسلم دونوں کے زاویہ نگاہ سے بہت اہم ہے۔ چند معروضات پیش کروں۔ آپ چاہتے ہیں ۔میں واضح کروں کہ حکومت جب کسی جماعت کے مذہبی اختلافات کو تسلیم کرتی ہے۔ تو میں اسے کس حد تک گوار ا کر سکتا ہوں۔ سو عرض ہے:
اولاً… اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے۔ جس کے حدود مقرر ہیں۔ یعنے وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اوررسول کریمؐ کی ختم رسالت پر ایمان ،دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے ۔ جو مسلم اورغیر مسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ کوئی فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمؐ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعے وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمؐ کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کرسکا۔
ایران میں ’’بہائیوں‘‘ نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریمؐ کی شخصیت کامرہون منت ہے۔
میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں۔ یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدیدتاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو۔تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ جائیں۔
ثانیاً… ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اوردنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرناچاہئے۔ بانی تحریک نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت