نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۱؎۔ (اخبار آثار مورخہ ۱۹صفر۱۳۷۳ھ مطابق ۲۹اکتوبر ۱۹۵۳ء )
یہ تعریف اسلامی رواداری بیان کرتے ہوئے کی ہے۔ مطلب یہ کہ اسلامی حکومت میں خواہ کوئی اسلام ترک کر دے ۔اس کو بھی قتل نہیں کر سکتے۔ جب تک بغاوت نہ کرے۔ گویا مرتد کو دوسرے کفار کی طرح سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ حکومت اسلامی میں رہ سکتے ہیں۔ مرتد بھی رہ سکتا ہے۔ حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ارتداد سے دوسروں کے دلوں میں شکوک پیدا ہوتے ہیں اور کفر کا راستہ کھلتا ہے اور پہلے سے کافر ہونے والے میں یہ بات نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید پارہ ۳ رکوع۱۶میں اس کا بیان ہے اورپھر آج تک کسی نے مرتد کی یہ تعریف نہیں کی۔ نیز یہ حدیث کے بھی صریح خلاف ہے۔ چنانچہ بخاری میں حدیث ہے:’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ (مشکوٰۃ ص۳۰۷، باب قتل اہل الردۃ فصل اول) {جو دین بدل دے اس کو قتل کر دو۔}
اوررسول اﷲﷺ نے معاذ ؓ کو یمن بھیجا۔ وہاں وہ ابوموسیٰ کو ملے۔ ان کے پاس ایک شخص مشکیں باندھے پڑاہواتھا۔ معاذؓ ابھی سواری سے نہیں اترے تھے کہ فرمایا :’’یہ کون ہے؟‘‘ کہا …’’یہ دین سے پھر گیا ہے۔‘‘…فرمایا…واﷲ میں سواری سے نہیں اتروں گا۔ جب تک یہ قتل نہ کیا جائے۔ رسول اﷲﷺ کا حکم ہے:’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ جب قتل کر دیا گیا۔ تو پھر سواری سے اترے ۔یہاں دین بدلنے پرقتل کا حکم ہو رہا ہے اورمسٹر محمد باقر نے بغاوت کی شرط رکھ دی اور اس بناء پرمرتد کی تعریف بدل دی۔ حالانکہ بغاوت کا مسئلہ اس سے الگ۲؎ ہے۔ اوراس میں بھی قتل ہے۔ مسٹر محمد باقر نے خلط ملط کر کے ایک ہی کر دیا۔ اناﷲ… خدا ان کو سمجھ دے اور ہدایت دے کہ ایسے مسائل میں خود دخل دینے کی بجائے ان کو اہل علم کے…حوالے کردیں۔
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قتل مرتد آیت کریمہ :’’لااکراہ فی الدین‘‘ کے خلاف ہے۔ حالانکہ ’’لااکراہ‘‘کے معنے ہیں کہ دین منوانے میں کسی پر جبر نہیں اورقتل مرتد دین منوانے پرنہیں ہوتا۔ بلکہ اس بناء پرہوتا ہے کہ دوسرے کے دلوں میں شکوک نہ بپا ہوں اور کفر کا راستہ نہ کھلے۔جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے۔والحمد ﷲ رب العالمین !
۱؎مودودی صاحب کا یہی نظریہ ہے۔ملاحظہ ہو بیان مودودی درتحقیقاتی عدالت قسط ۲زیر عنوان ’’مرتد کی سزا سلام میں‘‘ مندرجہ روزنامہ نوائے پاکستان لاہور۲۸؍اپریل۱۹۵۴ء
۲؎ بغاوت اورارتدادمیں دو طرح سے فرق ہے۔ ایک یہ کہ ارتداد میں قتل واجب ہے اور بغاوت میں قاضی کو اختیار ہے ۔دوم بغاوت مسلمانوں کو بھی شامل ہے۔