ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
سے پرہیز کرنا ہے ۔ یہ اشغال تو صوفیہ نے بہت آخر زمانہ میں جوگیوں سے لیے ہیں اور اس میں کچھ حرج بھی نہیں ۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اہل فارس کی حکایت سن کر خندق کھدوائی بوجہ ہونے کے اور اشغال تو بہت ادنیٰ درجہ کی چیز ہیں اور آج کل تو بزرگوں نے اکثر ان کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ لوگوں پر ضعف غالب ہے اور اشغال سے دماغ ومعدہ وغیرہ سب خراب ہوجاتے ہیں بعض لوگوں پر ضعف غالب ہے اور اشغال سے دماغ ومعدہ وغیرہ سب خراب ہوجاتے ہیں بعض لوگ تو اس میں ہلاک ہوگئے اور حضرت مولانا روم کے زمانہ میں تو اشغال تھے بھی نہیں ۔ یہ تو بہت آخر زمانہ کی ایجاد ہیں ۔ 23 ربیع الاول 35 ھ بروز پنجشبنہ (ملفوظ 92) لباس میں معیار : فرمایا کہ لباس کا یہ معیار ہے کہ ایسا لباس پہنے کہ جو خود اس کی تعریف ملتفت نہ ہو ۔ یعنی اپنی اس پر نظر نہ پڑے اگر کوئی نواب دو سو روپیہ کا جوڑا پہن لے تو وہ اس کی طرف کچھ بھی توجہ نہ کرے گا بخلاف معمولی غریب آدمی کے کہ اگر وہ پانچ روپیہ کا بھی پہن لے گا تو اس کے پھول بوٹوں کو ہی دیکھا کریگا اس لیے اس کیلئے دو سو کا جائز اور اس کیلئے پانچ کا نا جائز پھر فرمایا کہ اسی طرح اگر کوئی شخص بہت ہی ادنیٰ درجہ کے کپڑے پنے تواس کا قلب بھی ضرور اس میں مشغول ہوجائےگا ۔ اول تو وہ یہ خیال کریگا کہ میں بہت ذلیل وخوار ہوگیا دوسرے یہ کہ میں ایسا نفس مردہ ہوں کہ مجھے کچھ پرواہ نہیں ہے اپنی عزت کی بس یہ بھی مشغولی ہے ۔ (ملفوظ 93) نائی کو میرے سے محبت : فرمایا کہ میرے نائی کو مجھ سے ایسی محبت ہے کہ جیسی زمین کو مومن سے کہ زمین مومن کو قبر میں دبائے گی جس طرح ماں بچہ کو بوجہ محبت دباتی ہے ( چونکہ حجام جو کہ حضرت والا کی حجامت بناتے ہیں وہ بوڑھے ہیں اور بوجہ ضعف ہاتھ تیزی سے نہیں چلتا اور خط بناتے وقت بڑی زور سے چٹکی کا زور لگاتے ہیں اس لیے ان کے خط بنانے کو دبانے سے مشابہت فرمائی جامع عفی عنہ ) پھر فرمایا کہ والد صاحب کو جب کبھی بچوں پر پیار آتا تو بس کچ کچا کر گلہ دبا دیتے تھے اور جہاں بچہ رویا بس چھوڑ دیتے تھے بس اس سے زیادہ اور کچھ نہ کرتے تھے ۔ (ملفوظ 94) بے پروائی کی شکایت میں محبت کا مزہ : میں ( یعنی جامع عفی عنہ ) اجرت پر نقل کا کام کرتا ہوں حضرت والا نے ایک رسالہ