ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
اللہ میاں مجھے کینچ اللہ میاں مجھے کھینچ ۔ ایک دن ایک شخص وہاں جا بیٹھا اور ساتھ رسی بھی لیتا گیا ۔ جب اس نے حسب عادت کہا کہ اللہ میاں مجھے کھینچ اس نے رسی نیچے کو لٹکا دی اور کہا کہ اے بندے اسے اپنی گردن میں باندھ لے ۔ چنانچہ اس نے خوشی خوشی باندھ لی ۔ اس آدمی نے اوپر کو کھینچا تو لگا گلا گھٹنے ۔ بس بے ساختہ کہنے لگا کہ اللہ میاں ابھی نہیں ۔ (ملفوظ 768 ) معتقد کے کہنے کو برا نہ مانے : فرمایا کہ جس سے معتقد ہو اس کے کہنے کا برا نہ مانے ۔ تھوڑی دیر کو صبر کرلے کہ شاید یہ امتحان ہی لیتے ہوں ۔ پھر فرمایا کہ اگر وہ اس کا امتحان ہونا پہلے سے بتلادے تو پھر امتحان ہی کیا ہوا ۔ کسی کا اصلی مزاق کیسے معلوم ہو ۔ 9 شعبان المعظم 1335ھ بروز پنجشنبہ ( ملفوظ 769 ) فنا کی کیفیت کا غلبہ نہ ہو تو محب نہیں ، نا معقول حرکت پر تنبیہ ضروری ہے : فرمایا کہ جب تک فنا کی کیفیت غالب نہ ہو اس کو مشتاق یا محب نہیں کہہ سکتے ۔ تسبیح وخرقہ لزت مستی نہ بخشدت ہمت دریں عمل زدر عمل زدر میفر وش کن چنانچہ اگر کوئی قفیر مالدار سے کہے کہ آپ سے ملنے کا بڑا شوق تھا ۔ اس وجہ سے کہ سنا تھا کہ آپ کے یہاں روپیہ بٹتے ہیں تو وہ محب نہیں سمجھا جاتا ۔ کیونکہ یہ فانی نہ تھا اور محبت کے اس مرتبہ کا اگر چہ انسان مکلف نہیں مگر کمال یہی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اکثر ایسی محبت اول میں ہوجاتی ہے اور اس کیفیت عشقیہ کے بڑھنے میں کسی اسباب کی حاجت نہیں اور بیعت میں شیخ کو طالب کی جانب سے ایسی ہی محبت کا انتظار ہوتا ہے ہاں اگر یہ معلوم ہوجاؤے کہ اس کا مزاق ہی نہیں اس وقت میں مجبوری ہے ۔ طبعا انقیاد محض بدوں اس کے نہیں ہوتا ۔ بلکہ وساوس کی مزاحمت رائے میں رہتی ہے ۔ اور اگر ایسی محبت ہوجائے تو پھر واللہ اگر سر بازار جوتے لگائیں تو قلب پر اثر نہ ہوا اور طبعی حزن الگ چیز ہے اور اگر ناگواری ہو تو محبت ہی نہیں ۔ اور اس کی تحقیق امتحان سے ہوجاتی ہے ۔ مولانا اسمعیل صاحب شہید کی خدمت میں لکھنؤ کے ایک پر تکلف شہزادے حاضر ہوئے ۔ اور فرشی سلام کیا ۔ مولانا نے