ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
( ملفوظ 640 ) شیخ کو طبیب بھی ہونا چاہیے : فرمایا کہ مریض کے سامنے ایک تو داغ کا کام پڑھا جاوے اور دوسری طرف اس کے لیے حکیم محمود خاں کا نسخہ ہوتو اس مریض کے لیے تو وہ نسخہ ہی مفید ہے داغ کی غزل اس کے کس کام کی ۔ اس نسخہ میں وہ لزت ہے کہ بہت دنوں کے بعد راحت ومزہ آوے گا آج کل اول دن میں لزت چاہتے ہیں جو کیفیات دفعتہ اصل ہوتی ہیں وہ دیر پا نہیں ہوتیں ۔ ان باتوں کو ماہر سمجھتا ہے ۔ اس لیے ماہر کا اتباع کرے ۔ طالب کی ایسی مثال ہے جیسے کہ ایک شخص بھوکا ہے اسے خشکا دیا گیا اور پلاؤ نہیں دیا تو اس بھوکے کو چاہے کہ خشکا ہی لے لے اور ضعیف المعدہ کو اگر پلاؤ دے دیا جاوے تو ہضم کب ہوگا ۔ دہلی میں ایک شخص کو کسی نے حبس دم سکھایا مرگیا ۔ حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ شیخ کو طبیب بھی ہونا چاہیے ۔ ( ملفوظ 641 ) ایک بزرگ کا تصرف : فرمایا کہ ایک حکایت ایک معتبر شخص کی زبانی سنی ہے ۔ جو کہ ذاکر شاغل بھی ہیں کہ ایک بزرگ موسٰی جی مانک پور میں تھے ان کی خدمت میں ایک شخص رہتا تھا اس نے سنا تھا کہ یہ بزرگ صاحب تصرف ہیں اس لیے اس بات کا منتظر تھا کہ کچھ اثر ڈالیں اور وہ بزرگ یہ فرماتے تھے کہ ذکر شغل کرو ۔ غرض کہ اسی جھگڑے میں بہت دنوں سے پڑے تھے آخر میں ان مرید کے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب تصرف ہیں نہیں وہ شیخ اس خطرہ پر مطلع ہوگئے اور اس خطرہ کا عملی جواب دیا اس طرح کہ جب ہولی کا دن آیا شیخ نے کہا کہ ہولی کیسی ہوتی ہے مرید نے جواب دیا کہ رنگ ڈالتے ہیں شیخ نے فرمایا کہ تو ہم بھی آج ہولی کھیلیں گئے ۔ یہ سن کر وہ مرید پچکاری رنگ خرید کر لائے اور گھولا اور گھول کر کہا کہ اب حضرت کو اختیار ہے جو چاہیں سو کریں ۔ بس وہ بزرگ مسجد کے دروازے پر بیٹھ گئے بہت سے ہندوؤں کے پچکاری ماری ۔ جس پر ایک قطرہ پڑا ۔ اسی نے اشھد ان لا الہ الا اللہ پڑھ لیا ۔اس کے بعد انہوں نے ان مرید سے فرمایا کہ دیکھا تصرف مگر تجھے نہ دونگا ۔ ج تک کہ چکی نہ پسوالو نگا ۔ آخر انہوں نے ذکر شغل شروع کردیا