ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
(مفلوظ 607) خطوط میں احتیاط : خواجہ عزیز الحسن صاحب حضرت والا کی خدمت میں حاضر تھے اور اس امر کا اہتمام کررہے تھے کہ حضرت والا جو خطوط کے جوابات تحریر فرماتے ہیں ان میں سے وہ خطوط جو تربیت ومکتوبات خبرت وفتاوے میں یا کسی جگہ نقل نہیں کیے جاتے ہیں مگر ہیں وہ بھی مفید عام ۔ وہ حسن العزیز کے سلسلے کے لیے علیحدہ نقل کر لیے جایا کریں اور یہ کام نقل کا منشی ریاض الدین صاحب انبالوی کے سپرد کیا گیا ۔ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ منشی ریاض الدین صاحب کو خطوط نقل کے لیے کسی کی معرفت ملنے چاہئیں ۔ چنانچہ یہ کام احقر کے سپرد ہوا ۔ احقر کو حضرت نے ایک نقشہ بنا کردیا جس میں یہ سرخیاں تھیں ۔ تاریخ تعداد خطوط دستخط منشی ریاض الدین صاحب ، دستخط احقر برائے واپسی اور احقر سے فرمایا کہ دیتے وقت تو آپ منشی ریاض الدین صاحب سے دستخط لے لیا کیجئے اور واپسی پر اپنے دستخط کر دیا کیجئے ۔ اس انتظام سے انشاءاللہ کوئی خط ضائع نہ ہوگا ۔ ایک صاحب مولوی عبداللہ صاحب سے جوکہ نقل کے لیے خط لیا کرتے تھے ایک خط پر اختلاف ہوگیا تھا وہ کہتے تھے کہ میں نے دیدیا اور میں کہتا تھا کہ نہیں دیا ۔ تب سے میں نے یہ انتظام کردیا تھا کہ دادوستد کے وقت دستخط لینے چاہیئں ۔ چونکہ خطوط امانات ہیں اس لیے مجھے ان کی بڑی احتیاط ہے ۔ (ملفوظ 608) غلبہ غباوت : ایک فارغ طالب علم صاحب نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ قادنیوں کے فلاں اعتراض کا جواب آپ نے اپنی تفسیر نہیں دیا ۔ حضرت والا نے فرمایا کہ یہ مولوی صاحب تو بڑے مدعی ذہانت ہیں تفسیر میں جواب موجود ہے مگر ان کی سمجھ میں نہیں آٰیا ۔ آجکل یہ استعداد علمی رہ گئی ہے یہ تو بڑا فخر کرتے تھے کہ ہم اوروں سے زیادہ ذہین ہیں یہ حالت ہے انکی ذہانت کی ۔ تفسیر میں جوجواب ہے وہ طالب علم کے لیے تو بلکل صاف آوے گا تو پھر تیسرا اس سے بھی زیادہ صاف لکھوں گا وہ تفسیر میں جواب کا ہونا تب سمجھتے کہ جب اسطرح لکھا جاتا ،، اگر قادیانی یوں اعتراض کرے تو یہ جواب ہے ،، سو مجھے تفسیر مقصود تھی نہ کہ مناظرہ ۔ میں نے تقریر مدلول میں اس امرکا لحاظ رکھا ہے کہ کوئی اعتراض ہی نہ پڑنے