ہے ، جبکہ نقدی اور دیگر منقولہ اشیاء میں ابدیت و دوام کی توقع ہی نہیں ہوتی بلکہ نقدی میں تو خطرہ ہوتا ہے کہ کاروباری نقصان کے باعث اصل رقم کل یا کچھ جاتی رہے جبکہ دیگر منقولہ اشیاء مثلاً بہت سے برتن ،کتابیں اور مصاحف وغیرہ تیس چالیس سال کے استعمال سے بوسیدہ ہو جاتے ہیں اور کسی دوسرے کے کام کی نہیں رہتے۔علاوہ ازیں وہ کسی حادثے کا شکار بھی ہو سکتی ہیں اور چوری بھی ہو سکتی ہیں ، اس لئے نقدی سمیت منقولہ اشیاء میں صرف یہی صورت ممکن ہے کہ آدمی ان کو وجوہ خیر میں اولاً ہی وقف کر دے اور شرط کر دے کہ دیگر حق داروں کی طرح وہ خود بھی نفع اٹھائے گا یا وقف کے منافع کا حقدار ہونے کی وجہ سے دوسرے حقداروں کے ساتھ شریک ہوگا۔
مولانا عثمانی مدظلہ کے دارالعلوم کے جناب مفتی عصمت اللہ اور ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی نے ہماری بات پر یہ اعتراض کیا:
’’ شروع میں شیئر ہولڈرز نے کچھ رقم وقف کر کے ایک فنڈ قائم کیا، اس مرحلہ پر یہ وقف الدراہم یا وقف النقود ہے اور صرف یہی وقف ہے، اس میں واقفین نہ وقف علی النفس کی کوئی شرط لگاتے ہیں اور نہ ہی انتفاع کی کوئی شرط لگاتے ہیں ، بلکہ وہ وقف کر کے اس فنڈ کے انتفاع سے فارغ ہوگئے…جہاں تک چندہ کا تعلق ہے تو وہ وقف ہے ہی نہیں ، بلکہ وہ مملوکِ فنڈ ہے، جس میں وقف علی النفس کی بحث نہیں آتی، کیوں کہ یہ وقف ہی نہیں ‘‘۔(تحریر نمبر:۱،ص:۲)
’’ آپ نے وقف النقود میں علی الاغنیاء المتضررین کو بھی ناجائز قرار دیا ، لیکن اس کی کوئی دلیل ہمیں نہیں ملی، جب کہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔ (تحریر نمبر:۲،ص:۱)