رکھا تو یہ اس کے لئے جائز ہے،کیونکہ اگر وہ یہ شرط نہ بھی کرے تب بھی اسکو حق حاصل ہے کہ خود اس پر جہاد کرے۔
(۲) اور اگر وقف کرنے والے کی مراد یہ ہے کہ وہ گھوڑے کو اپنے دیگر ذاتی کاموں میں استعمال کرے تو یہ اس کے لئے جائز نہیں اور اسکا وقف تو صحیح ہوگا لیکن شرط باطل اور کالعدم ہوگی۔
اس حوالہ سے بخوبی واضح ہے کہ منقولہ اشیاء مثلاً: نقدی اور گھوڑے وغیرہ میں اگر وقف اس طرح کیا کہ اول تو صرف وہ خود یا اس کی اولاد یا دیگر اغنیاء اس سے فائدہ اٹھائیں گے پھر بالآخر وہ فقراء میں یا کسی اور نیک کام میں وقف ہو تو یہ صورت جائز نہیں ۔ ہاں اگر وجوہِ خیر میں فوری وقف کر دے اور ایک حق دار بن کر کوئی غنی بھی فائدہ اٹھائے تو جائز ہے، مثلاً:نقدی وقف کی کہ اس کے منافع سے مدرسہ کے طلبہ کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا جائے تو فقراء کی طرح اغنیاء کے بچے بھی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں اور اگر یوں کہا جائے کہ پہلے دس سال صرف اغنیاء کے بچوں کے لیے وقف ہے، پھر فقراء کے بچوں کے لیے، تو یہ جائز نہیں ۔
ہماری بات کے برعکس نظامِ تکافل میں مولانا تقی عثمانی مدظلہ اس بات کو جائز کہتے ہیں کہ تکافل کمپنی کے ڈائریکٹر سرمایہ اس طرح سے وقف کریں کہ وہ پہلے تو ایک طویل عرصہ کے لیے محض اغنیاء کے لیے وقف ہو پھر بعد میں کبھی فقراء کے لیے ہو اور اس پر وہ یہ دلیل دیتے ہیں :
في الذخیرۃ : إذا وقف أرضا وشیٔا آخر وشرط الکل لنفسہ أو شرط البعض لنفسہ مادام حیا وبعدہ