ہندوستان میں مغرب و مشرق کی کشمکش
دوسرا میدان ہندوستان تھا، جہاں مشرق و مغرب کی یہ کشمکش مختلف سیاسی اور تہذیبی اسباب کی بنا پر اس طریقہ پر سامنے آئی کہ اس کے سامنے دو راستوں کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہ رہ گیا تھا، اسلامی زندگی کی ترجیح عقیدہ وایمان کی بنا پر، یا مغربی زندگی کا انتخاب مادی قوت اور ترقی کی بنیاد پر۔
ہندوستان میں انگریزی حکومت (جو مشرق میں تہذیب مغرب کی نمائندہ اور وکیل تھی) کے قدم اچھی طرح جم چکے تھے، وہ اپنے ساتھ جدید علوم اور جدید تنظیمات اور اس کے متعلقہ آلات ومصنوعات اور افکار و خیالات کا ایک بڑا لشکر ساتھ لائی، ہندوستانی مسلمان اس وقت زخم خوردہ، مضمحل اور شکستہ خاطر تھے، ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں ان کی عزت و خودداری پر ضرب کاری لگی تھی، دوسری طرف ان کو نئے فاتح کا رعب، نئے حالات کی دہشت، ناکامی کی شرم اور مختلف شکوک و شبہات اور تہمتوں کا سامنا تھا، ان کے روبرو ایک ایسا فاتح تھا جو قوت وخود اعتمادی سے لبریز تھا، ایک ایسی تہذیب تھی جو جدت ونشاط انگیزی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال تھی، بہت سے ایسے مشکلات اور مسائل تھے، جو فوری اور دور اندیشانہ حل اور فیصلہ کن اور واضح موقف (پالیسی) کے طلب گار تھے۔
دینی قیادت اور دارالعلوم دیوبند
اس پیچیدہ نفسیاتی کیفیت اور نازک حالت میں دو قسم کی قیادتیں ابھر کر