’’اسلام عرب قوم کے جذبۂ ابدیت ووسعت کا بہترین اظہار و تعبیر ہے، اور اس لحاظ سے وہ اپنی حقیقت میں عربی ہے، اپنے مثالی مقاصد میں انسانی ہے، پس اسلام کا پیغام درحقیقت انسانی عربی اخلاق ہے‘‘۔۱؎
’’اس لیے وہ معنیٰ جس کو اس اہم تاریخی دور میں اور ترقی و تغیر کے اس نازک مرحلہ میں اسلام آشکارا کررہا ہے یہ ہے کہ ساری قوتیں عربوں کی طاقت بڑھانے اور ان کو ترقی دینے پر صرف کی جائیں اور یہ ساری قوتیں عرب قومیت کے دائرہ کے اندر محصور ہوں‘‘۔۲؎
’’یورپ میں خالص قومی نظریہ منطقی بنیاد پر قائم ہے، جب کہ قومیت کا مذہب سے انفصال طے شدہ امر بن چکا ہے، اس لیے کہ یورپ میں مذہب باہر سے آیا ہے، اور اس کے مزاج اور تاریخ کے لیے اجنبی ہے، اور وہ عقیدۂ آخرت اور اخلاق کا خلاصہ ہے، وہ نہ ان کے ماحول کی ضروریات کا آئینہ دار ہے، نہ ان کی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے، جب کہ اسلام عربوں کے لیے صرف ایک اخروی عقیدہ یا بعض اخلاقیات کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ زندگی کے بارہ میں ان کے نقطۂ نظر، ان کے کائناتی شعور کا فصیح ترین ترجمان اور ان کی شخصیت کی وحدت کی طاقتور تعبیر ہے، جس میں الفاظ شعور اور فکر کے ساتھ وابستہ اور پیوست ہیں‘‘۔ ۳؎
شام کی بے بسی اور بعث پارٹی کی ناکامی
بدقسمتی سے یہ طرز فکر اور یہ فلسفۂ حیات شام کے فوجی حلقوں اور یونیورسٹی کے فضلاء میں روز بروز مقبول ہوتا چلا گیا، ملک کی آبادی کے ان عناصر نے جو مختلف عقائد ومذاہب کے پیرو تھے، اور شروع سے فوج پر حاوی رہے ہیں، ان کو دل و جان سے قبول کیا، پچھلے چند برس سے
------------------------------
۱؎ ص۴۷ ۲؎ ص۴۸ ۳؎ ص۴۹