امید کی روشنی
جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو اپنی مخصوص عصری تربیت اور جدید صلاحیتوں کی بنا پر قیادت و رہنمائی کے منصب پر فائز ہے، اپنی ان تمام کمزوریوں اور مزاج کے باوجود، جو مغربی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے، سلامت فہم اور قبولِ حق کی استعداد و صلاحیت سے محروم نہیں، بلکہ عام طور پر وہ قوتِ فیصلہ، قوتِ عمل اور حقیقت پسندی میں بعض دوسرے طبقوں سے بھی ممتاز ہے، اس طبقہ کے بہت سے افراد جب کسی بات کو صحیح اور حق سمجھ لیتے ہیں تو بڑے جوش اور انہماک کے ساتھ اس کی تبلیغ و اشاعت میں مشغول ہوجاتے ہیں، اس طبقہ میں بکثرت ایسے افراد پائے جاتے ہیں، جن کو اسلام سے گہرا تعلق اور سچا عشق ہے، اس طبقہ سے اسلام کو بعض بڑے صحیح الخیال، عمیق النظر مفکر، اسلام کے شیدائی اور سرفروش مجاہدحاصل ہوئے، بہت سی دینی دعوتوں اور اسلامی تحریکات کو اسی طبقہ سے پرجوش داعی، اور باعمل سپاہی ملے، مشرقی وسطٰی میں سید جمال الدین افغانی، شیخ محمد عبدہ، اور شیخ حسن بنّا کو ہندوستان میں تحریک خلافت سے لے کر عصرِ حاضر کی تمام دینی تحریکات کے قائدین کو اسی طبقہ میں سے اپنے بہترین کارکن ہاتھ آئے، اب بھی اگر دین کے داعی بے لوث اور مخلصانہ طریقہ پر اس کو دین سے مانوس کرنے کی کوشش کریں، ان کے ذہن کی ان شکنوں کو دور کر دیں جو مغرب کی مخصوص مزاج کی تعلیم نے ڈال دی ہیں، اور ایمان کی اس چنگاری کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائیں، جو اَب بھی ان کے دل و دماغ کے اندر دبی ہوئی ہے تو اب بھی اس طبقہ میں اقبال و محمد علی جیسے صاحبِ فکر و صاحبِ عمل افراد پیدا ہوسکتے ہیں، یہ دین کے داعی کے لئے ایک ایسا حیرت انگیز لیکن مسرّت بخش انکشاف ہوگا کہ اس کی زبان سے بے اختیار نکلے گا کہ۔ع