عرب قوم پرستی اور اشتراکیت کے عین اس جوش اور شباب کے زمانے میں اسرائیل وعرب کی جنگ پیش آگئی اور شام کو دوبدو اس حریف سے لڑنا پڑا جس کو وہ ابھی تک للکارتا رہا تھا، اور جس کے مقابلے اور جس کی سرکوبی کے لیے وہ قومیت عربیہ کا نعرہ بلند کرتا رہا تھا، لیکن اس جنگ کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ شام اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکا بلکہ حریف اس کی سرزمین میں دور تک گھس آیا اور وہ اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا، اب وہ بھی ایک بے بسی کے عالم میں اپنے اشتراکی سرپرستوں اور قومیت عربیہ کے علمبرداروں کی مدد کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، معاشی، سیاسی اور فوجی لحاظ سے وہ خستہ ودرماندہ نظر آتا ہے، پیشین گوئی کرنی مشکل ہے کہ وہ ان پیچیدہ حالات سے کس طرح عہدہ برآ ہوگا، اسی کے ساتھ وہ شامی نوجوان جن کے اندر ایمان کی چنگاری ہے، اور وہ اس ملک کو آسانی کے ساتھ لادینیت، اور دینی ودنیوی خسران کی گود میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، اس ملک میں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں، نوجوان مردوں اور تعلیم پانے والی لڑکیوں میں ایک حیرت انگیز دینی بیداری پیدا ہورہی ہے، اس بیداری اور بیزاری کو کچلنے کے لیے حکومت کی طرف سے وہ سب کچھ کیا جارہا ہے، جو شاید بڑی سے بڑی مخالف اسلام طاقت نہ کرتی۔
معاشی بدحالی اور بے اعتمادی
مصنف کو (رجب ١۳۹۳ھ ۔اگست١۹۷۳ء میں) شام کو دیکھنے اور دمشق میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا، اور اس سفر کے کچھ تاثرات اپنے سفرنامے ’’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘‘ میں درج کیے تھے، ان سے بھی اس خطرے کی تائید ہوتی ہے، جسے مصنف نے گذشتہ سطور میں ظاہر کیا ہے یعنی شامی قوم کو اشتراکیت سے کوئی فائدہ نہ پہونچنے کا خطرہ، مصنف نے لکھا تھا:۔
’’ان لیڈروں کا نعرہ تھا، روٹی، بھوکے کے لیے ایک لقمہ، قوم کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، فٹ پاتھ کے آدمی کی کفالت، اور ان کی تگ ودو بھی انہی مقاصد کے حصول کے لیے تھی، جب یہ مقاصد ہی حاصل نہ ہوئے تو