تجدد کے داعیوں کی نقالی
مغربی زندگی کے تجربوں کو ایک مشرقی اسلامی ملک میں دہرانے کی یہ مخلصانہ اور بااصرار کوشش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ان ممالک کے رہنما باوجود اپنی وسیع عصری تعلیم و ثقافت اور بڑی بڑی ذمہ داریوں پر فائز ہونے کے ابھی دماغی لحاظ سے عہدِ طفولیت اور نقل و تقلید اور اپنے مغربی اساتذہ کی نیازمندانہ شاگردی کے دور میں ہیں، وہ آزادانہ طریقہ پر سونچنے، جدتِ فکر، تخلیقی صلاحیتوں ، ٹھوس اور سنجیدہ طریق کار سے محروم ہیں، وہ نہ صرف اپنی قوم کے مزاج سے ناواقف اور اس کی طاقتوں اور صلاحیتوں سے بے خبر ہیں بلکہ مغربی فکر کی ترقی و تبدیلی کا ساتھ دینے سے بھی قاصر ہیں اور مغربی سوسائٹی جس بے چینی، بے یقینی، بے دلی اور اکتاہٹ کا شکار اور ایمان و روحانیت کی پیاسی ہے، اُس سے بھی بے خبر اور ناواقف ہیں۔
نامذہبیت اور الحاد کی تبلیغ کرنے والوں کی دو رُخی پالیسی
اس نامذہبیت، روشن خیالی اور ترقی پسندی کے پرجوش و سرگرام داعیوں اور مبلغوں کا جنہوں نے عالمِ اسلام میں "تجدد" کا صور پھونک دیا ہے، خود اپنے حلقہ اثر اور اپنے گھر میں اس بارے میں کیا طرز عمل ہے اور انہوں نے اپنی حکومتوں اور حدود ِ مملکت میں نامذہبیت کو نافذ کیا ہے یا وہ جب موقع آیا تو کٹر مذہبی، رجعت پسندی اور احیاء پرست ثابت ہوئے ہیں؟
جہاں تک ان دانشوروں اور حکوموں کا سوال ہے جو مسیحی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔1
------------------------------
1 ملاحظہ ہو امیر شکیب ارسلان کی کتاب "حاضر العالم الاسلامی" ج 3 عنوان " قضیہ فصل الدین عن ایساستہ"صفحہ 353 تا 364