کے ان فضلاء اور رہنماوں سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ؎
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ میروی بترکستان است
علوم اسلام کا زوال اور علماء کا فکری اضمحلال
عالم اسلام کے جدید اعلٰی تعلیم یافتہ طبقہ اور ان لوگوں کی( جن کےہاتھ میں حکومت و سیاست کی باگ ڈور ہے) بےراہ روی، غلط اندیشی اور دین سے مایوسی کا کسی قدر سبب وہ جمود و اضمحلال بھی ہےجو علوم اسلامیہ کے مرکزوں اور نمائندوں پر طویل مدّت سے طاری ہے، اس جمود اضمحلال کی وجہ سے یہ علوم جو نمود ارتقاء کی اعلٰی صلاحیتوں سے بھر پور ہیں اپنی صلاحیت و افادیت اور بدلتی ہوئی زندگی کی رہنمائی کی قابلیت کاوہ روشن ثبوت پیش نہیں کرسکےجو تنازع للبقاء کے اس دور میں درکار تھا، علوم اسلامیہ کا قدیم نصابِ تعلیم اس زمانہ میں تو برابر بدلتا اور زندگی کا ساتھ دیتا رہا جس میں انقلابات بہت دیر میں آتے تھے اور ان کی نوعیت میں بنیادی فرق نہیں ہوتا تھا، یہ انقلابات اشخاص اور حکمراں خاندانوں کی تبدیلی کا نام تھے، لیکن اس کے باوجود واضعینِ نصاب اور عالمِ اسلام میں علمی و تعلیمی تحریک کے رہنما برابر اپنی ذہانت و حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے اور تبدیلی و اضافہ سے کام لیتے رہے، لیکن جب انیسویں صدی عیسوی کا وہ زمانہ آیا جس میں حکمراں خاندانوں کا نہیں بلکہ تہذیبوں اور افکار و اقدار کا انقلاب رونما ہوا اور انقلابات کی کثرت اور شدّت دونوں حد سے متجاوز ہوگئیں تو یہ نصاب ایک منزل پر آکر ٹھہر گیا، اور اس نے ہر تغیّرو اضافہ سے انکار کردیا، مضامین، مقررہ کتابوں اور طرزِ تعلیم، ہر چیز میں