ذہانت اور قوت ارادی کا امتحان
تہذیب کا ڈھانچہ تیار کرنا اور تمدن کی تشکیل، انسانی ذہانت، کسی قوم کی عبقریت (GENIUS) اس کی قوت ارادی اور حوصلہ مندی اور دین کے صحیح فہم کا امتحان ہے، وہ مجرد نقل و تنقید یا اضافہ و ترمیم کا عمل نہیں ہے، اسلام نے حرام و حلال کے حدود مقرر کئے ہیں، ان حدود سے آگے بڑھنا اس نے ناجائز بتایا ہے، اس کے درمیان پاکیزہ اور مناسب طریقہ پر زندگی سے تمتع کا وسیع میدان ہے، شرط یہ ہے کہ اس میں اسراف و بخل نہ ہو، دوسروں کی حق تلفی نہ ہو، گناہ میں ملوث ہونے اور اسراف وغیرہ میں مبتلا ہو جانے کا ڈر نہ ہو۔ غرض کہ زندگی کا وہ طرز نہ ہو جو مردانہ اوصاف اور شریفانہ خصائل کے منافی ہو، یہ اسپرٹ لباس، غذا، گھر اور گھر کے ماحول اور زندگی سے لطف اندوزی کے ہر شعبہ میں جاری و ساری ہے، اس نے مصالح کی رعایت، مفاسد اور مضرتوں سے احتیاط، مادی اور دفاعی قوت کا ممکن حد تک حصول اور مفید اور نافع علوم سے استفادہ کی ترغیب دی ہے، بشرطیکہ وہ اس کی شخصیت کی بنیادوں کو کمزور اور اس کی اسلامی قومیت کو مجروح نہ کرتی ہوں، نیز اس قوم میں احساس کہتری، بے اعتمادی اور دوسروں کی بے ارادہ اور جذباتی طریقہ پر اندھی تقلید، ان کے رنگ میں رنگ جانے اور ان کے طرز حیات کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنے کا جذبہ اور خواہش پیدا نہ ہو۔
فولاد کی سختی اور ریشم کی نرمی!
یہ اس تہذیب کی اساس ہے جس میں ایک طرف فولاد کی سختی ہے دوسری طرف ریشم کی سی نرمی،