سید جمال الدین افغانی کی تحریک کے اثرات اور ان کا مکتب فکر!
اس عظیم مقصد اور مشرق کے مخصوص سیاسی حالات نے جمال الدین افغانی جیسے جذباتی اور حساس شخص کے کئے سرگرمی و جدو جہد اور قوت عمل کا کوئی اور دوسرا میدان باقی نہیں چھوڑا اور وہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں کوئی ایجابی خدمت انجام نہ دے سکے، ان کو مغربی تہذیب کے گہرے اور تفصیلی مطالعہ، آزادانہ تحلیل و تجزیہ کے عمل کو مکمل کرنے اور اس کی روشنی میں ایک ایسا نیا مکتب فکر تیار کرنے کا موقعہ نہیں ملا جو بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ چل سکے اور مشرق کے طاقتور تقلیدی رحجان پر غالب آ سکے۔
لیکن جدید تعلیم یافتہ اور ذہین مسلمان نسل کی نگاہوں میں وہ نہایت بلند مقام رکھتے ہیں، وہ ان چند افراد میں ہیں جنہوں نے جدید اسلامی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، ان کی عظمت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مصر کے تعلیم یافتہ اور زہین طبقہ کو الحاد و لادینیت کے آغوش میں جانے کے کام میں مزاحمت کی۔
تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کے ذہنی و علمی اثرات اور اس کی طرف سے اجمالی عقیدت کے باقی رہنے میں ان کی تحریروں اور ان کے اثرات کا ضرور دخل ہے، بروکلیمن (BROCKLEMNN) نے صحیح کہا ہے کہ :
"مصر کی روحانی زندگی پر پہلے بھی اسلام کی حکمرانی تھی، اب تک بھی یہی حال ہے، یہ زیادہ تر ایک ایرانی جمال الدین کے باعث ہے جنہوں نے سیاسی وجوہ سے اس بات کو ترجیح دی کہ اپنے آپ کو اس ملک کی طرف منسوب کر کے جہاں اپنی جوانی گزاری تھی، افغانی بتائیں۔" (۱)
------------------------------
۱۔ (CARL CROCKLEMANN)
CARL BROCKLEMANN - GESCHICHTE DER ISLAMISCHEN VOELKER UND STAATEN, MUNCHEN, BERLIN 1938.